شادی محض انسانی خواہشات کی تکمیل اور فطری جذبات کی تسکین کا نام نہیں ہے بلکہ انسان کی زندگی میں شادی کی بہت اہمیت ہے، شادی نہ صرف انسان کی زندگی بلکہ معاشرتی اقدار کے فروغ کیلئے بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
شادی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایسا لڈو ہے جو کھائے وہ پچھتائے اور جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے مگر شریک حیات کا ساتھ لمبی زندگی کی کنجی ثابت ہوسکتا ہے۔
ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ تنہا زندگی گزارنا مردوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
اس سے قبل بھی سابقہ تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوچکا ہے کہ تنہا زندگی گزارنا کسی فرد کی صحت پر مضر اثرات مرتب کرسکتا ہے مگر اس نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسا کم از کم مردوں کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
ڈنمارک کی کوپن ہیگن یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 4835 افراد کے خون کے نمونوں کے ذریعے جسم میں ورم کی مجموعی سطح کی جانچ پڑتال کی گئی۔
اگر آپ کو علم نہ ہو تو جان لیں کہ خون کے ٹیسٹوں میں ایسے پروٹینز یا انفلیمٹری مارکرز کو دیکھا جاتا ہے جو جسم میں ورم کی سطح کا عندیہ دیتے ہیں۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ شادی شدہ مردوں کے مقابلے میں تنہا یا شریک حیات سے الگ ہونے والے مردوں میں ورم کی سطح نمایاں ہوتی ہے، مگر خواتین میں ایسا اثر دیکھنے میں نہیں آیا۔
تنہائی کو محسوس کرنے اور مضر طبی اثرات تو پہلے سے ثابت ہیں مگر اس تحقیق میں ان شواہد کو تقویت ملی کہ غیر شادی شدہ افراد کو اس کے نتیجے میں ورم کا سامنا ہوتا ہے جو امراض قلب کا باعث بننے والا اہم عنصر ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ خواتین میں تنہا زندگی گزارنے یا شادی ٹوٹنے اور ورم کے درمیان مردوں جتنا ٹھوس تعلق دیکھنے میں نہیں آیا۔
مگر محققین نے تسلیم کیا کہ اس نتیجے کی ایک جزوی وجہ تحقیق میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کی کم تعداد بھی ہوسکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ رضاکاروں میں ورم کی شرح زیادہ عمر میں مزید بڑھ سکتی ہے اور ایسا ممکن ہے کہ شریک حیات سے علیحدگی اور تنہا زندگی گزارے جانے والے برس کے اثرات آنے والے برسوں میں بھی جاری رہ سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ زیادہ خطرے سے دوچار گروپ میں اس حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے، جب انہیں ورم کے خطرات کا علم ہوگا تو وہ صحت مند طرز زندگی اختیار کرسکتے ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ معمول کی جسمانی سرگرمیاں اور صحت مند طرز زندگی جسمانی اور ذہنی دونوں طرح کی صحت پر مرتب اثرات کی روک تھام میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل بی ایم جے میں شائع ہوئے۔
اس سے قبل برطانیہ کے آسٹن میڈیکل اسکول کی تحقیق میں بتایا گیا کہ شریک حیات کا ساتھ ہائی بلڈ پریشر، ہائی کولیسٹرول اور ذیابیطس ٹائپ ٹو سے موت کا خطرہ کم کردیتا ہے۔
تحقیق کے مطابق اس کی وجہ شوہر یا بیوی کی جانب سے اپنے شریک حیات کی نگہداشت ہے جو ان عام مگر جان لیوا امراض کا اثر کم کردیتا ہے۔
محققین کے خیال میں اس کی وجہ شریک حیات کی جانب سے ادویات کا خیال رکھنے، صحت بخش غذا اور مناسب جسمانی سرگرمیاں ہوتی ہے۔
اس تحقیق کے دوران دس لاکھ سے زائد افراد کے طبی ریکارڈ کا جائزہ 2000 سے 2013 کے درمیان لیا گیا۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ شادی شدہ افراد میں ہائی کولیسٹرول کے عارضے سے موت کا خطرہ 16فیصد کم ہوجاتا ہے، اسی طرح بلڈپریشر سے موت کا خطرہ 14 فیصد اور ذیابیطس کا خطرہ 10 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔