دنیا کے ذہین افراد پر مشتمل ماہرین کی ٹیم نے دنیا کے موجودہ حالات پر آئندہ دس سال میں دنیا میں ہونے والی بڑی تبدیلیوں کی پیشگوئی کی ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکا میں قائم ادارہ اٹلانٹک کونسل دنیا میں ممکنہ طور پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کا قبل از وقت اندازہ لگانے کے لئے سوچ و بچار اور سرویز کرتا ہے۔ اس کونسل کے تحت کام کرنے والے ’سکیوکرافٹ سینٹر فار اسٹریٹجی اینڈ سیکیورٹی‘ نے حال ہی میں اگلے دس برسوں میں ممکنہ طور پر دنیا میں رونما ہونے والی بڑی تبدیلیوں کے حوالے سے ایک جائزہ مرتب کیا ہے۔ اس تجزیاتی جائزہ کو مرتب کرنے کے لئے دنیا بھر میں موجود چوٹی کے تزویراتی ماہرین اور موجودہ حالات کی بنیاد پر مستقبل کی پیش گوئی کرنے کی شہرت رکھنے والی شخصیات سے استفادہ کیا گیا ہے۔
اس رپورٹ کو دنیا بھر کے 167 ماہرین نے مرتب کیا ہے جن کا تعلق عالمی سیاست، موسمی تغیرات، ٹیکنالوجی، عالمی معیشت، سماجی وسیاسی تحاریک اور رجحانات سمیت مختلف شعبوں کے ساتھ ہے۔ ان میں سے 60 فیصد امریکا میں رہائش پذیر وہ ماہرین ہیں جن کا تعلق دنیا کے 30 ممالک سے ہے۔
روس موجودہ شکل میں برقرار نہیں رہے گا:
تجزیہ نگار ماہرین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ روس آئندہ 10 برسوں میں موجودہ شکل میں برقرار نہیں رہ سکے گا اور دنیا میں سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار رکھنے والا یہ ملک یوکرین کی جنگ سے پیدا ہونے والی منفی صورتحال کے نتیجے میں مزید شکست و ریخت کا شکار ہوجائے گا۔
ان میں سے 40 فیصد ماہرین کا خیال ہے کہ 2033 تک روس کے اندر انقلاب آسکتا ہے، خانہ جنگی شروع ہوسکتی ہے یا پھر سیاسی طور پر شکست و ریخت کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ 14 فیصد ماہرین کو اندیشہ ہے کہ اس عرصہ میں روس ایٹمی ہتھیار کا استعمال کرسکتا ہے۔ اکثریت کے خیال میں اس بات کا غالب امکان موجود ہے کہ روس یا تو ٹوٹ جائے گا یا پھر ایک ناکام ریاست بن جائے گا۔ 10 فیصد کو اُمید ہے کہ روس ایک آمرانہ طرز حکومت سے حقیقی جمہوریت کی طرف مائل ہوسکتا ہے۔
مزید ایٹمی ممالک وجود میں آئیں گے:
اس وقت دنیا تخفیف اسلحہ اور ایٹمی ہتھیار تلف کرنے کے لیے کوشاں ہیں لیکن ان ماہرین کا خیال ہے کہ آئندہ 10 سالوں میں مزید کئی نئے ممالک ایٹمی صلاحیت حاصل کر لیں گے جن میں سر فہرست ایران ہے جس ک بعد سعودی عرب، جاپان، جنوبی کوریا بھی اس فہرست میں شامل ہو سکتے ہیں۔ صرف 13 فیصد ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ آئندہ دس سالوں تک کسی ایٹمی ملک کا اضافہ نہیں ہوگا جب کہ 58 فیصد ماہرین کا اندازہ ہے کہ ایٹمی ہتھیار استعمال نہیں ہوں گے۔ اکثریت کا خیال ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو کے خلاف عالمی تعاون کمزور پڑجائے گا۔
تائیوان کے خلاف چین فوجی کارروائی کرے گا:
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ چین 2027 سے قبل تائیوان کے خلاف فوجی کارروائی کر سکتا ہے۔ غالب اکثریت اس بات سے متفق ہے کہ اگر چین نے تائیوان پر چڑھائی کی تو امریکا جنگ میں کود پڑے گا۔ ان کے تجزیئے کے مطابق بڑی طاقتوں میں جنگ کا میدان یورپ کے بجائے ایشیا ہوگا۔
چین اور امریکا کی معاشی جنگ جاری رہے گی:
ماہرین کا خیال ہے کہ امریکا اور چین کے درمیان معاشی کمشکش اور کھینچا تانی کے ڈرامائی اختتام کی کوئی امید نہیں۔ کچھ کا اندازہ ہے کہ عالمی تناؤ کے باعث آئندہ سالوں میں دونوں ممالک کا ایک دوسرے پر معاشی انحصار کافی حد تک کم ہو جائے گا جب کہ 22 فیصد ماہرین کی رائے بالکل اس کے متضاد ہے۔
امریکا بدستور عالمی طاقت رہے گا مگر؟
تجزیہ کار ماہرین کی اکثریت اس بات پر تو متفق ہیں کہ امریکا بدستور بڑی عالمی طاقت رہے گا تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس کی عالمی چوہدراہٹ اس طرح قائم نہیں رہے گی جیسی کہ اس وقت ہے۔ 70 فیصد ماہرین سمجھتے ہیں کہ چین کی عسکری جدت امریکا کو پیچھے چھوڑ دے گی جب کہ نصف ماہرین کے خیال میں امریکا کی ٹیکنالوجی کی میدان میں برتری قائم رہے گی۔ 19 فیصد اگلے دس برسوں میں امریکا کے ٹوٹنے کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔
دنیا کی جمہوریتوں کے لیے 10 مشکل ترین سال ہوں گے:
دنیا کے جمہوری ملکوں کو قوم پرست اور محروم طبقات کے حقوق کی تحریکوں کا سامنا رہے گا۔ انہیں ٹیکنالوجی کی تیز رفتار، ہوشربا ترقی سے پیدا ہونے والے چیلنجوں سے بھی نمٹنا ہوگا۔ ایک تہائی ماحولیاتی معاملات، نوجوانوں اور خواتین مسائل پر تحریکوں میں اضافے کی پیش گوئی کرتے ہیں۔ 53 فیصد ماہرین سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا جمہوری ممالک کے لیے منفی اثرات کا باعث ہوگا۔ 57 سے 68 فیصد ماہرین نے کوانٹم کمپیوٹنگ، ڈرائیور کے بغیر چلنے والی گاڑیوں اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے انسانی دماغ کی طرح کام کرنے والی مشینوں کے کامیاب استعمال کے آغاز کی خبر دی ہے۔ جہاں ان ٹیکنالوجیز سے غیرمعمولی فوائد حاصل ہوں گے وہیں بہت سے چیلنج بھی سامنے آئیں گے جن میں ملازمتوں، عوامی صحت اور تحفظ کے معاملات شامل ہوں گے اور یہ تمام معاملات دنیا کی جمہوریتوں کے لئے مشکل ترین ہوں گے۔
جمہوریت اور آمریت میں کشمکش بڑھے گی:
جمہوری اور آمرانہ طرز حکمرانی میں کشمکش بڑھے گی، جس میں جمہوریتوں کو پسپائی کا سامنا ہوگا۔37 فیصد ماہرین کا خیال ہے کہ اگلے دس برسوں میں جمہوریتوں کو پسپائی کا سامنا ہوگا جبکہ29 فیصد کا خیال ہے کہ جمہوری ممالک میں اضافہ ہوگا۔ 35 فیصد کا اندازہ ہے کہ جمہوری ریاستوں میں کمی یا اضافہ نہیں ہوگا۔ ایک دلچسپ اقلیتی رائے یہ سامنے آئی ہے (9 فیصد کل ماہرین اور 10 فیصد امریکی ماہرین) کہ اگلے دس برسوں میں امریکا جمہوریت سے آمریت کی طرف مائل ہوجائے گا۔
مزید معاشی بحران آئیں گے:
76 فیصد ماہرین کو اندیشہ ہے کہ آئندہ دس برسوں میں اتنی ہی شدت کا معاشی بحران آ سکتا ہے جو 2008-9 میں آیا تھا جب کہ 18 فیصد اس بات پر متفق ہیں کہ دنیا آئندہ دس سالوں میں کئی سنگین معاشی بحرانوں کا سامنا کر سکتی ہے۔
کئی عالمی وبائیں بھی پر پھیلائیں گی:
دنیا کے چوٹی کے ماہرین میں سے 49 فیصد آئندہ دس برسوں میں کووڈ 19 جیسی ایک اور عالمی وبا کا خطرہ دیکھ رہے ہیں جبکہ 16 فیصد کا کہنا ہے کہ ایک سے زیادہ وبائوں کا اندیشہ ہے۔
موسمی تغیرات:
موسمی تغیرات پر تعاون بڑھے گا لیکن مضر گیسوں کے اخراج کے خاتمے پر جوش و خروش ماند پڑجائے گا۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق 2025 ء تک کاربن کے اخراج کی مقدار بلند ترین سطح پر پہنچ جائے گی۔
عالمی سلامتی کے اداروں کی تعداد جوں کی توں رہے گی:
ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا کو درپیش غیرمعمولی چیلنجوں اور عالمی امن و استحکام کو لاحق خطرات کے باوجود عالمی سلامتی کے اداروں کی تعداد میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ ’نیٹو، اتحاد بدستور قائم رہے گا۔ نیٹو کے رُکن ممالک سے تعلق رکھنے والے ماہرین میں سے 85 فیصد نیٹو کو برقرار دیکھتے ہیں اور رکن ممالک کی تعداد بھی بڑھ سکتی ہے۔