تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

کرونا مریضوں میں موت کا خطرہ کب بڑھتا ہے؟ نئی تحقیق میں انکشاف

کرونا وائرس کے مریضوں کو اکثر خون میں لوتھڑے بننے کی شکایت ہونے لگتی ہے اور یہ مائیکرو کلاٹس ہی موت کا خطرہ بڑھا دیتے ہیں۔

امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق کے مطابق کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار افراد میں ورم اور بلڈ کلاٹس کی ممکنہ وجہ وہ اینٹی باڈیز ہوتی ہیں جو جسم اس بیماری سے لڑنے کے لیے تیار کرتا ہے، مگر وہ پھیپھڑوں میں غیر ضروری پلیٹ لیٹس سرگرمیوں کو متحرک کردیتی ہیں اور یہ خون کے لوتھڑے موت کے خطرے کو بڑھاتے ہیں۔

طبی جریدے جرنل آف امیونٹی، انفلیمیشن اینڈ ڈیزیز میں شائع ہونے والی لوما لنڈا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ یہ لوتھڑے جسم کے دیگر حصوں میں پہنچتے ہیں اور جسم کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔

محققین نے کہا ہے کہ جسم میں مائیکرو کلاٹس بننے کا عمل شروع ہونے کے بعد جسم ان کلاٹس کو روکنے میں لگ جاتا ہے اور وائرس کے خلاف مزاحمت روک دیتا ہے۔

امریکی تحقیق کاروں نے کہا کہ سائنس داں ابھی تک وبا کا علاج کرنے میں لگے حالانکہ کے ہمیں بلڈ کلاٹس بننے کی وجوہات بننے والی بیماری کا علاج دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔

تحقیق کاروں نے نتائج میں واضح کیا کہ سائنس دانوں کےلیے یہ سمجھنا مشکل تھا کہ کرونا وائرس کے باعث کس طرح مریض فالج، ہارٹ اٹیک، گردے فیل ہونے یا متعدد اعضا کے افعال بیک وقت فیل ہونے سے فوت ہوجاتا ہے۔

تحقیق کے دوران اس کا علم ہوا کہ کرونا سے بہت زیادہ متاثر ہونے والے شخص کے جسم میں مائیکرو کلاٹس بنتے ہیں جو دماغ، دل، جگر، گردوں، پھیپھڑوں یا دیگر کے جان لیوا حد تک نقصان پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔

ماہرین نے کہا کہ کرونا سے متاثرہ افراد کے جسم میں مونو سائٹس بدل رک میکو فیجز میں تبدیل ہوجاتی ہیں پھر وہ پھیپھڑوں کی نالیوں کو اندر سے متاثر کرتی ہیں اور خلیات پر بھی حملہ آور ہوتی ہیں۔

محققین نے کہا کہ اگر مائیکرو فیجز شریانوں کو نقصان پہنچائے تو شریانوں میں خون جمنے لگتا ہے اور پھر یہ لوتھڑے دیگر اعضا تک پہنچ کر چھوٹی شریانوں کو بند کردیتے ہیں اور پھر انسان کا جلد ہی انتقال ہوجاتا ہے۔

محققین نے مشاہدہ کیا کہ صرف 4 دن کے اندر بہت زیادہ بیمار 3 افراد میں اعضا کو شدید نقصان پہنچا، ان میں سے 2 کا انتقال ہوگیا جبکہ ایک کے دماغ کو بہت زیادہ نقصان پہنچا۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈیڑھ سال کے دوران طبی ماہرین کوویڈ کے علاج کے لیے اینٹی وائرل ادویات کو دریافت نہیں کرسکے، مگر ہمارے خیال میں اینٹی وائرل کی بجائے اینٹی کلاٹنگ دوا بہت زیادہ مفید ثابت ہوسکتی ہے۔

Comments

- Advertisement -