دل دل پاکستان وہ ملی نغمہ ہے جو آج ہر پاکستانی کے لبوں پر ازبر ہے یہ بی بی سی کی 70 ویں سالگرہ پر 2003 میں دنیا کا تیسرا بہترین ملی نغمہ بھی قرار پایا تھا۔
آج سے 34 سال قبل 1989 میں ملی نغموں کو نیا ٹرینڈ ملا جب اسٹوڈیو میں ساکت انداز میں ملی نغمے کے بجائے ایک پبلک پارک میں پاپ میوزک بینڈ وائٹل سائن نے یہ نغمہ پیش کیا تو دیکھنے اور سننے والوں کو یہ انفرادیت ایسی بھائی کہ ٹی وی پر یہ ملی نغمہ نشر ہوتے ہی ہر ایک کی زبان پر چڑھ گیا اور وائٹل سائن بھی راتوں رات شہرت اختیار کر گیا۔
گیت نگار نثار ملک کے قلم سے لکھا گیا اور شعیب منصور کے اسے اس دلکش انداز میں پیش کیا کہ پھر آنے والے دور میں ہر ملی نغمہ اس سے متاثر دکھائی دیا اور مقبولیت سرحد پار بھی جا پہنچی جہاں بالی ووڈ نے اسے دل دل ہندوستان کے نام سے ہو بہو چربہ کیا لیکن وہ شہرت اس کا مقدر نہ بن سکی۔
یہ تو اس ملی نغمے کا وہ پہلو ہے جس کو آج کی نسل بخوبی جانتی ہے اور یہ گیت کئی دہائیوں بعد بھی مقبولیت کے سنگھاسن پر براجمان ہے اور اپنی شہرت کے باعث اس کو پاکستان کا دوسرا قومی ترانہ تصور کیا جاتا ہے۔ وائٹل سائن میں یوں تو اس وقت جنید جمشید مرحوم )جنہوں نے بعد ازاں گلوکاری کا شعبہ ترک کر دیا تھا( کے ساتھ سلمان احمد، روحیل حیات، شہزاد حسن بھی شامل تھے تاہم سب سے زیادہ شہرت جنید جمشید کا مقدر بنی۔
لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ ملی نغمہ جنید جمشید نے سب سے پہلے کب گایا تھا؟
جنید جمشید نے 1999 میں پی ٹی وی کے ایک پروگرام میں یہ کہا تھا کہ بچپن سے ان کے ذہن میں خواہش تھی کہ اگر زندگی نے موقع دیا، تو وہ دو گیت ’دل دل پاکستان‘ اور ’قسم اس وقت کی‘ کو دنیا کے سامنے پیش کریں گے۔ تو کیا یہ گیت کم سنی ہی سے جنید جمیشد کے ذہن میں جڑ پکڑ چکا تھا؟ مگر یہ کیسے ممکن ہے؟
ملی نغموں پر تحقیق کرنے والے محقق ابصار احمد کے مطابق نثار ناسک کا لکھا ہوا گیت ’دل دل پاکستان، جاں جاں پاکستان‘ پہلی بار سنہ 1967 میں ریڈیو پاکستان، راولپنڈی سے بچوں کے ایک پروگرام میں پیش کیا گیا۔ تب بچوں نے کورس میں اسے گایا تھا۔ اتفاق سے اس پروگرام میں ننھے جنید جمشید اپنے والد اسکواڈرن لیڈر جمشید انور کے ساتھ موجود تھے، جو پروگرام کے مہمان خصوصی تھے اور شاید تب ہی یہ نغمہ جنید کے ذہن میں بیٹھ گیا۔
ابصار احمد کے مطابق سنہ 1967 میں یوم دفاع کی دوسری سالگرہ کے موقع پر راولپنڈی اسٹیشن سے پیش کردہ اس گیت کی ریکارڈنگ ریڈیو راولپنڈی کے ریکارڈز میں موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ سنہ 1983 میں نثار ناسک کی بچوں کے لیے لکھی نغموں کی ایک کتاب شائع ہوئی تھی، اس میں بھی یہ گیت موجود ہے، جو ریڈیو پاکستان کے لیے لکھا گیا تھا اور پہلے نغمے کے اشعار یوں تھے۔
اپنی ہے زمیں اپنا آسماں
ایسے جہاں سے جانا اب کہاں
بڑھتی رہے روشنی کی ہر کرن
ہر دل میں رہے بس یہی لگن
دل دل پاکستان
جاں جاں پاکستان
گو اشعار تو زیادہ تبدیل نہیں ہوئے، مگر ابصار احمد کے مطابق سنہ 1987 میں پیش کردہ ملی نغمے کی دھن یکسر مختلف ہے، وہ بچوں کا روایتی کورس تھا، جب کہ شعیب منصور کی پیش کش میں آنے والا نغمہ پاپ میوزک پر مشتمل تھا۔