ڈپٹی میئر ارشد وہرہ کی پی ایس پی میں شمولیت کا غبار ابھی تھما نہیں تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے سابق ڈپٹی کنونیر انجینیئر ناصر جمال نے بھی اپنی سابقہ جماعت کو خیر آباد کہہ کر پاک سرزمین پارٹی میں شمولیت حاصل کرلی ہے وہ ضلع وسطی کی یوسی کونسل 47 پاپوش نگر کے یوسی چیئرمین بھی ہیں جب کہ ان کے ساتھ وائس چیئرمین منتخب ہونے والے ریحان ہاشمی بعد ازاں ضلع وسطی کے چیئرمین بنے۔
ایم کیو ایم کے دیگر رہنماؤں کی طرح ناصر جمال بھی زمانہ طالب علمی سے مہاجر طلبہ ونگ سے منسلک ہوگئے تھے تاہم سیاست میں آنے کے باوجود انہوں نے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا اور نا مساعد حالات میں بھی علم سے ناطہ برقرار رکھا یہاں تک کہ مشہور زمانہ کراچی آپریشن کے دوران بھی اپنی تعلیم جاری رکھی اور اس کے لیے بیرون ملک رخت سفر بھی باندھا۔
متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ناصر جمال الیکٹریکل انجینیئر ہیں اور کے- الیکٹرک میں فرائض انجام دے رہے ہیں اور ساتھ ہی درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری رکھا، وہ الیکٹریکل میں ایم فل کے بعد پی ایچ ڈی کی تیاریوں میں مشغول ہیں اور انہیں انہی صلاحیتوں کے باعث بانی ایم کیو ایم کی جانب سے توانائی کے بحران پر قابو پانے اور توانائی کی پیداواری صلاحیتوں میں اضافے کے مواقع ڈھونڈنے کے لیے بنائی گئی کمیٹی کا انچارج بھی مقرر کیا تھا۔
ناصر جمال ایک عرصے تک ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر شعبہ اطلاعات میں فرائض انجام دیتے رہے اور سوشل میڈیا سیل کی رہنمائی اور معاونت کے لیے ہر وقت حاضر رہا کرتے تھے جہاں وہ بانی ایم کیو ایم کے کافی قریب سمجھے جاتے تھے چنانچہ 2013 میں کراچی سے تحریک انصاف کی کامیابی سے نالاں بانی تحریک نے رابطہ کمیٹی و کراچی تنظیمی کمیٹی توڑ کر مئی 2013 میں ناصر جمال کو ڈپٹی کنونیر کی ذمہ داری سونپی۔
اس دوران ناصر جمال نے نائن زیرو میں قائم شعبہ جات کی دیکھ بحال، شعبہ اطلاعات، ریسرچ کمیٹی، سوشل میڈیا، ایڈمنسٹریشن اور گریجویٹ فورم سمیت طلبہ ونگ اے پی ایم ایس او میں اپنی انتظامی صلاحیتوں کا لوہا منوالیا وہ تنظیم میں پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے سینیئر ممبر کا مقام رکھتے ہیں اس لیے وہ ہر ایک کو بھاتے تھے اور شاید اسی لیے ان پر نہ کبھی کوئی مقدمہ بنا اور نہ کوئی شکایت سننے میں آئی۔
تاہم جلد ہی ان کی مرکزی قیادت کے ساتھ اختلافات کی خبریں گردش کرنے لگیں جب کہ کچھ حلقوں کا کہنا تھا کہ بانی ایم کیو ایم بھی ان کے چند اقدامات سے ناخوش نظر آتے ہیں جس کے باعث ڈیڑھ دو سال کے اندر ہی انہیں ڈپٹی کنونیر کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کر کے شعبہ اطلاعات میں کام جاری رکھنے کی ہدایت کی گئی جس کے بعد انہیں بلدیاتی الیکشن میں یوسی چیئرمین کا ٹکٹ بھی دیا گیا۔
یوسی چیئرمین منتخب ہونے کے بعد خیال کیا جارہا تھا کہ انہیں میئر کراچی کے لیے نامزد کیا جائے لیکن قرعہ فال وسیم اختر کے نام نکلا جس کے بعد کئی حلقوں نے امکان ظاہر کیا کہ کہ ناصر جمال کو ضلع وسطی کا چیئرمین یا وائس چیئرمین نامزد کیا جائے گا تاہم ایسا بھی نہ ہوسکا اور پھر مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کے پاکستان واپسی کے بعد وہ سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہوگئے تھے۔
بانی ایم کیو ایم کی متنازعہ تقریر اور پاکستان مخالف نعرے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے بعد ناصر جمال نے فاروق ستار کی قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے میئر کراچی اور ڈپٹی میئر کراچی کے انتخابات میں اپنا ووٹ ایم کیو ایم کے امیدواروں کو دیا تاہم کچھ عرصے سے ان کی ٹوئٹس میں بانی ایم کیو ایم کے خلاف سخت تنقیدی الفاظ ایم کیو ایم پاکستان کی پالیسی سے متصادم اور پی ایس پی کی جانب جھکاؤ کو صاف ظاہر کر رہی تھیں۔
ڈپٹی میئر جو پیشے کے لحاظ بزنس مین ہیں اور انجینیئرنگ میں پی ایچ ڈی ہیں ’’ یکساں تعلیمی رجحان‘‘ رکھنے اور ’’ این ای ڈیئن ‘‘ ہونے کے باعث ناصر جمال ان کے قریب سمجھے جاتے تھے، ارشد وہرہ کی پاک سرزمین پارٹی میں شمولیت کے بعد ناصر جمال کی اسی ڈگر پر چل نکلنے کے امکانات روشن ہوچلے تھے اور کراچی کی سیاست پر نظر رکھنے والے اس متوقع تبدیلی کے لیے پہلے سے تیار تھے۔
ڈپٹی میئر ارشد وہر کا استعفیٰ نہ دینا اور ناصر جمال سمیت دو چار یوسی چیئرمین کا پی ایس پی میں شمولیت اختیار کرنا مصطفیٰ کمال کے اس بیانیے کی تصدیق کرتے نظر آتے ہیں جس میں انہوں نے دعوی کیا تھا کہ بلدیاتی نمائندے ہم سے رابطے میں ہیں اور ہمارے پاس اتنے ووٹ ہوجائیں گے کہ ہم نہ صرف ڈپٹی میئر ارشد وہرہ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنا دیں گے بلکہ ان ہاؤس تبدیلی بھی کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
مندرجہ بالا صورت حال کراچی کی سیاست میں ہلچل مچاتی نظر آتی ہے جب کہ اس سارے منظر نامے میں ایم کیو ایم پاکستان کا نرم ردعمل حیران کن ہے جس نے اب تک ارشد وہرہ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی عوامی سطح پر اس اہم ایشو پر کوئی خاص ردعمل دیا ہے بلکہ اس کٹھن حالات میں فاروق ستار کے نرم اشعار کسی اور معاشقے کی کہانی سنا رہے ہیں۔
اس تمام صورت حال سے سب سے زیادہ کراچی کے شہری متاثر ہو رہے ہیں جن کے منتخب نمائندے یا تو ملک سے باہر ہیں یا پھر کراچی میں تو ہیں لیکن ان کے دفاتر پر تالے پڑے ہیں اور کراچی والے اب اپنے نمائندوں کی شکلیں کسی پریس کانفرنس میں ہی دیکھ پاتے ہیں جہاں ان کے نمائندے اپنا سیاسی قبلہ بدلنے کی توجیہات پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں.
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔