تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

بلقیس بانو کون ہے اور 2002 میں اس پر کیا قیامت گزری؟ لرزہ خیز داستان

بھارت میں بلقیس بانو سے اجتماعی زیادتی کرنے والے 11 مجرموں کو گزشتہ دنوں بری کردیا گیا۔ بلقیس بانو کون ہیں اور ان پر 2002 میں کیا قیامت گزری اس سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔

بلقیس بانو کو 21 سال کی عمر میں گودھرا ٹرین جلانے کے واقعے کے بعد ہونے والے مسلم کش فسادات میں اس وقت درندگی کا نشانہ بنایا گیا جب وہ پانچ ماہ کی حاملہ تھیں اور اس واقعے میں ان کے خاندان کے 7 افراد کو انتہائی بے رحمی سے قتل بھی کیا گیا۔

اے آروائی نیوز براہِ راست دیکھیں live.arynews.tv پر

27 فروری 2002 کو گودھرا میں سابرمتی ٹرین کو جلائے جانے کے بعد گجرات بھر میں مسلم کش فسادات شروع ہوگئے تھے۔ تشدد پھیلنے کے خوف سے بلقیس اپنی ساڑھے تین سالہ بیٹی اور خاندان کے 15 دیگر افراد کے ہمراہ رندھیک پور نامی اپنے گاؤں کی طرف چلی گئی اور چھپرواڈ ضلع میں پناہ لی لیکن بدقسمتی نے اس کا پیچھا یہاں بھی نہ چھوڑا۔

تین مارچ کو 30 کے لگ بھگ وحشی نما انسانوں نے جو درانتیوں، تلواروں اور لاٹھیوں سے مسلح تھے نے بلقیس اور اس کے خاندان پر حملہ کردیا۔ ان وحشیوں نے بلقیس، اس کی والدہ اور دیگر تین خواتین کی عصمت دری کی اور خاندان کے افراد کو انتہائی بیدردی سے قتل کیا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملزمان نے بلقیس کی کمسن بچی کو زمین پر پٹخ کر مار ڈالا۔ اس سانحے میں صرف تین افراد ہی زندہ بچ سکے جن میں بلقیس، ایک مرد اور ایک تین سالہ بچہ شامل تھے۔

اس وقت کی رپورٹس کے مطابق بلقیس کو اس قیامت صغریٰ بیتنے کے تین گھنٹے بعد ہوش آیا تو اس نے ایک خاتون سے کپڑے لے کر اپنا بے لباس تن ڈھانپا اور ہوم گارڈ کی مدد سے شکایت درج کرانے لمکھیڑا پولیس اسٹیشن گئی جہاں اسے طبی معائنے کیلیے سرکاری اسپتال لے جایا گیا۔ اس کا مقدمہ قومی انسانی حقوق کمیشن (NHRC) اور سپریم کورٹ نے اٹھایا جس نے مرکزی تفتیشی بیورو کو تحقیقات کا حکم دیا۔

دو سال بعد 2004 میں اس کیس کے ملزمان کو گرفتار کیا گیا اور احمد آباد میں اس مقدمے کی سماعت شروع ہوئی تاہم سی بی آر کے ذریعے جمع کیے گئے شواہد سے چھیڑ چھاڑ اور متاثرہ خاتون کے گواہوں کو نقصان پہنچنے کے خدشے کے اظہار کے بعد بھارتی سپریم کورٹ نے یہ کیس ممبئی منتقل کردیا۔

چار سال تک مقدمے کی سماعت ہوتی رہی اور آخر کار 2008 میں خصوصی سی بی آئی عدالت نے گیارہ ملزمان پر حاملہ خاتون کی عصمت دری، قتل اور غیر قانونی طور پر جمع ہونے کی سازش کے الزامات ثابت ہونے پر تعزیرات ہند کے تحت عمر قید کی سزا سنائی اور دیگر سات ملزمان جن میں پولیس اہلکار اور دو ڈاکٹرز بھی شامل تھے کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کردیا جب کہ مقدمے کی سماعت کے دوران ایک ملزم کی موت بھی واقع ہوچکی تھی۔

عدالتی فیصلے کے مطابق جسونت بھائی نائی، گووند بھائی نائی اور نریش کمار موردھیا (متوفی) نے بلقیس کی عصمت دری کی جب کہ شیلیش بھٹ نے اس کی کمسن بیٹی کو زمین پر پٹخ کر قتل کیا اس مقدمے میں دیگر جن کو سزا سنائی گئی تھی ان میں رادھے شیام شاہ، بپن چندر جوشی، کیسر بھائی ووہنیا، پردیپ ووہنیا، بکا بھائی ووہنیا، راجو بھائی سونی، نتیش بھٹ، رمیش چندنا اور ہیڈ کانسٹیبل سوما بھائی گوری شامل تھے۔

2017 میں ممبئی ہائیکورٹ نے گینگ ریپ کیس میں تمام مجرموں کی سزا اور عمر قید کو برقرار رکھا تھا جب کہ اپریل 2019 میں بھارتی سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو ہدایت کی تھی کہ بلقیس بانو کو 50 لاکھ روپے معاوضے کے ساتھ ساتھ اس کی پسند کی نوکری اور رہائش بھی دی جائے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: بلقیس بانو اجتماعی عصمت دری کیس کے سبھی مجرم جیل سے رہا

گجرات حکومت کی جانب سے ان تمام مجرموں کو معاف کیے جانے کے بعد چند روز قبل رہا کردیا گیا ہے۔

Comments

- Advertisement -