تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

’چھتری والا قاتل‘ کون تھا؟

ڈنمارک کی ایک نئی ڈاکو منٹری میں فرانچیسکو گولینو پر کے  پراسرار کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے، جنہیں ’ایجنٹ پیکیڈیلی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق بلغاریہ کے ایک صحافی ہرِسٹو ہرسٹوف کی طرف سے فرانچسیکو سے متعلق ایک انٹیلی جنس فائل کو ریلیز کرانے کے لیے ایک قانونی جنگ جیتنے کے بعد دنیا کو معلوم ہوا کہ اٹلی میں پیدا ہونے والے ڈنمارک کے شہری گولینو نے بلغاریہ کی سیکرٹ سروس کے لیے 1971ء میں کام کا آغاز کیا۔

آج تک گولینو کو ‘امبریلا اسیسینیشن‘ نامی کیس کا مرکزی مشتبہ شخص تصور کیا جاتا ہے، یہ کیس بلغاریہ کے ایک مصنف اور حکومت مخلاف جورجی مارکوف کے قتل کا تھا، جو لندن میں 1978ء میں ہوا۔

 رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مارکوف کو لندن کے ایک بس اسٹاپ پر ایک خاص طور پر تیار کی گئی چھتری کی نوک سے زخم دیا گیا، جس میں زہر موجود تھا۔

ایک ڈینش ٹی وی ڈاکومینٹری میں صحافی اُلرک اسٹوک نے فرانچیسکو گولینو کے بارے میں کچھ حیران کن تفصیلات شیئر کی ہے، جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ قتل کے کئی ایک معاملات کی ذمہ دار تھی، وہ جنسی طور پر منحرف فسطائیت پسند اور بدنام زمانہ دھوکے باز تھی۔

گولینو کے بطور ایک خفیہ ایجنٹ سفر کا آغاز 1970ء میں اس وقت ہوا جب انہیں اسمگلنگ اور استعمال شدہ کاروں کی غیر قانونی تجارت کے الزام میں بلغاریہ میں حراست میں لیا گیا۔ اس کے کچھ وقت بعد انہیں بلغاریہ کی سیکرٹ سروس نے اپنا ایجنٹ بنا لیا اور انہیں ‘پیکیڈیلی‘ کا کوڈ نام دیا گیا۔

1978ء میں بلغاریہ کی سیکرٹ سروس کے سینیئر ارکان کی طرف سے ان کے اعزاز میں ایک شاندار عشائیے کا اہتمام کیا گیا اور انہیں لندن میں تعینات کیا گیا۔

یہ مارکوف کے قتل کے وقت کا دور تھا۔ اس دور سے متعلق تمام طرح کی دستاویزات ‘پیکیڈیلی‘ کی فائل سے 1990ء میں ہٹا دی گئیں اور انہیں تلف کر دیا گیا۔

اس وقت بلغاریہ کی سیکرٹ سروس کے سربراہ ولادیمیر ٹوروڈوف کو 1992ء میں اس کیس سے متعلق دستاویزات تلف کرنے کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا گیا۔

 ان کے سینیئر اور اس معاملے میں شریک نائب وزیر اعظم جنرل اسٹویان سیووف نے مقدمے سے بچنے کے لیے خودکشی کر لی تھی۔

بلغاریہ کی سیکرٹ سروس شاید اس بارے میں بے خبر تھی جو اسٹوک کی ڈاکومنٹری منظر عام پر لائی ہے اس میں گولینو اپنی زندگی میں فسطائیت پسند تھی۔

 ڈنمارک کے صحافی کے پاس گولینو کے قبضے میں رہنے والی ہٹلر کی کتاب ‘مائن کامپف‘ کی کاپی اور میسولینی کی تصاویر پر مبنی کیلنڈر بھی موجود ہے۔

گولینو کے شدت پسندانہ سیاسی جھکاؤ نے جنسی انحراف کے رویے میں کردار ادا کیا۔ بچے کے طور پر انہوں نے کئی برس اپنی خالہ کے ساتھ اٹلی میں گزارے جہاں وہ ایک قحبہ خانہ چلاتی تھیں۔ بظاہر اسی تجربے کے سبب انہوں نے اپنی ساری زندگی جسم فروش خواتین کے درمیان ہی گزاری۔

انہوں نے ایسی خواتین کو جنسی عمل کے دوران نازی پرچم لپیٹ کر تصاویر بنوانے اور فاشسٹ یونیفارم پہن کر تصاویر بنوانے کے لیے ادائیگی بھی کی۔ گولینو نے ایک فوٹو اسٹوڈیو بنایا اور ایک سیکرٹری بھی رکھی۔

ڈینش ڈاکومنٹری ٹیم نے ایسی 100 تصاویر کا پتہ چلایا ہے۔ اسٹوک نے بتایا کہ گولینو کی ایک قابل احترام شخصیت اور سیکرٹ سروس کے لیے ان کی خدمات کے ساتھ ساتھ جنسی ترجیحات ان کی تیسری زندگی تھی۔

Comments

- Advertisement -