پیر, دسمبر 9, 2024
اشتہار

کرونا سے پھیپھڑے کیوں متاثر ہوتے ہیں؟ چونکا دینے والا انکشاف

اشتہار

حیرت انگیز

کرونا وائرس انسانی جسم کے جس عضو کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتا ہے وہ پھیپھڑے ہیں، حال ہی میں ہونے والی تحقیق میں پھیپھڑوں کو نقصان پہنچنے کی وجوہات کا پتہ چلا ہے۔

جنوبی کوریا میں ہونے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کرونا وائرس سے متاثرہ شخص کے پھیپڑوں کو نقصان پہنچنے کی وجہ خون کے مونوسائٹس میں موجود ایک مخصوص میکروفیج (نسیج کے افعال کے لیے اہم خلیہ)کووڈ سے متاثر پھیپھڑوں میں ورم کے شدید ردعمل میں کردار ادا کرتے ہیں۔

کوریا ایڈوانسڈ انسٹیٹوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ کے ابتدائی مرحلے میں پھیپھڑوں کے ٹشوز سب سے پہلے متاثر ہوتے ہیں اور ایک دفاعی نظام حرکت میں آتا ہے۔

- Advertisement -

میکروفیج پھیپھڑوں کے اس فطری مدافعتی نظام کے اہم خلیات میں سے ایک ہے اور دوران خون میں موجود میکروفیج بھی وائرسز کے خلاف ابتدائی دفاع میں کردار ادا کرتے ہیں۔

محققین نے میکروفیج کی 10 ذیلی اقسام کا تجزیہ کرونا وائرس کی بیماری کے 5 دن کے عرصے کے دوران کیا اور دریافت کیا کہ متحرک مونوسائٹس سے بننے والے میکروفیجز وائرس کو کلیئر کرنے کے ساتھ ساتھ پھیپھڑوں کے ٹشوز کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔

مزید براں انہوں نے دریافت کیا کہ میکروفیجز کے ورم کا عمل کووڈ کی سنگین شدت کا سامنا کرنے والے مریضوں کے پھیپھڑوں کے ٹشوز میں ہونے والے مدافعتی ردعمل سے ملتا جلتا ہوتا ہے۔

اس وقت یہ تحقیقی ٹیم ایک فالو اپ تحقیق پر کام کررہے ہیں تاکہ کووڈ کے مریضوں میں سائٹوکائین اسٹروم سے بننے والے شدید ترین ورم کو کنٹرول کرنے کا ذریعہ تلاش کرسکیں۔

محققین نے بتایا کہ تجزیے سے کووڈ 19 امیونٹی کے ابتدائی فیچرز کو سمجھنے میں مدد ملے گی اور مخصوص میکروفیجز کو ہدف بنانے کے لیے مدافعتی ردعمل کو دبانے والے اجزا کی شناخت میں مدد مل سکے گی۔

چین میں محققین نے کرونا سے متاثرہ افراد کو صحت یاب ہونے کے کچھ ماہ بعد پھیپھڑے کے امراض میں مبتلا پایا اور ہر تین ماہ بعد ان کا معائنہ کیا گیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ صحت یاب ہونے والے پانچ فیصد مریضوں کو پھیپھڑے معمول کے مطابق کام نہیں کرپاتے اور ان کی خون میں آکسیجن منتقل کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ خواتین کے پھیپھڑوں کے افعال متاثر ہونے کی شرح مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے اور اس حوالے سے جاننے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں