انسان بیمار ہوتا ہے تو ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے لیکن جب وہ دوا کا نسخہ لکھ کر دیتا ہے تو نا سمجھ آنے والی لکھائی الجھن میں مبتلا کر دیتی ہے۔
ڈاکٹروں اور مریضوں کو چولی دامن کا ساتھ ہے کیونکہ کوئی بھی شخص بیمار ہونے کے بعد سب سے پہلے ڈاکٹر کے دواخانے یا اسپتال کا رخ کرتا ہے لیکن جب ڈاکٹر مریض کا چیک اپ کرنے کے بعد اسے ادویات کا لکھا نسخہ تھماتا ہے تو اکثر مریض سمجھ نہ آنے والی لکھائی کے باعث سر بھی پکڑ لیتے ہیں۔
ڈاکٹر ہمارے معاشرے کا وہ فرد ہوتا ہے جو ایک طویل محنت اور تعلیم کے بعد مسیحائی کے منصب پر فائز ہوتا ہے لیکن اکثریت ڈاکٹروں کی لکھائی عام پڑھے لکھے افراد کے لیے بھی نا قابل فہم ہوتی ہے۔ اکثر تو میڈیکل اسٹورز کے عملے کو بھی نسخے کے مطابق دوائیں دینے میں مشکل پیش آتی ہے۔
اس حوالے سے کافی بحث ومباحثہ ہوتا رہتا ہے کہ معاشرے کے اتنے پڑھے لکھے طبقے کی لکھائی آخر اتنا خراب کیوں ہوتی ہے اور اب اس پر امریکا میں تحقیقات کی گئیں تو اس میں انکشاف ہوا کہ
ڈاکٹروں کی ناقابل فہم تحریر کے پیچھے ایک اہم عنصر مسلسل لکھنے کی ضرورت ہے۔ طب کے میدان میں درست تشخیص اور علاج کے لیے نوٹس لیتے رہنا بہت ضروری ہے اور یہی ضرورت ڈاکٹروں کو وسیع پیمانے پر لکھنے پر مجبور کرتی ہے جو ان کے ہاتھ پر اثر انداز ہوتی ہے۔
ڈاکٹر روتھ برٹو کا کہنا ہے کہ دن میں 10 سے 12 گھنٹے تک لکھنا جسمانی طور پر تھکا دینے والا کام ہے اور جیسے جیسے دن آگے بڑھتا ہے ڈاکٹروں کی لکھائی ان کے ہاتھوں کے پٹھوں میں تھکاوٹ کی وجہ سے خراب ہوتی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ موجودہ دور میں حفظانِ صحت کی تیز رفتاری بھی ڈاکٹروں کی ناقص لکھائی میں کردار ادا کرتی ہے۔ ڈاکٹر اکثر اپنے آپ کو وقت کے دباؤ میں پاتے ہیں کیونکہ مریضوں کا تانتا بندھا رہتا ہے اور ان کے پاس اوسطاً مریض کو دیکھنے کا وقت 15 منٹ کا ہوتا ہے۔