تازہ ترین

وزیراعظم شہبازشریف کو امریکی صدر جو بائیڈن کا خط، نیک تمناؤں کا اظہار

واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیر اعظم شہباز...

بابر اعظم کو دوبارہ قومی ٹیم کا کپتان بنانے کا فیصلہ ہو گیا

پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کو ایک بار...

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

جون تک پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل کرلیا جائے گا، وفاقی وزیر خزانہ

کراچی : وزیرخزانہ محمداورنگزیب کا کہنا ہے کہ پی...

بیس سال پہلے بچوں کو اغوا کرنے خاتون کا عبرتناک انجام

سعودی عرب دمام میں فوجداری کی عدالت نے بچوں کو اغوا کرنے والے گروہ کی سرغنہ خاتون کو موت کی سزا سنائی ہے، سعودی میڈیا میں خاتون خاطفۃ الدمام (دمام کی اغواکنندہ) کے لقب سے مشہور ہے۔

خاتون نے تین عشرے قبل مشرقی سعودی عرب کے معروف شہر دمام میں تین شیرخوار اغوا کیے تھے۔ عدالت نے یمنی اغوا کار کو 25 برس قید کی سزا کا حکم دیا ہے۔

العربیہ نیٹ کے مطابق پبلک پراسیکیوشن نے فرد جرم عائد کرتے ہوئے پہلے، دوسرے اور تیسرے ملزمان کے خلاف حد الحرابہ کی سزا کا مطالبہ کیا تھا۔

اسلامی قانون میں حد الحرابہ کی سزا ایسے لوگوں کو دی جاتی ہے جو علاقے میں انارکی پھیلا رہے ہوں اور طاقت کے بل پر قانون اپنے ہاتھ میں لے رہے ہوں۔

پبلک پراسیکیوشن کے ترجمان نے بیان جاری کرکے کہا تھا کہ دمام کی اغوا کار خاتون نے اپنے زیر کفالت دو بچوں کی شناخت کی دستاویزات حاصل کرنے کے لیے یہ کہہ کر درخواست دی تھی کہ اسے بیس برس سے زیادہ پہلے یہ دونوں بچے لاوارث ملے تھے۔اسے نہیں معلوم کہ یہ کس کے بچے ہیں۔

پبلک پراسیکیوٹر شیخ سعود المعجب نے واقعہ کی اطلاع ملنے پر متعلقہ اداروں کو حقائق دریافت کرنے کی ہدایت جاری کردی تھی۔اس سلسلے میں متعدد اداروں نے مل کر کام کیا تھا۔

ڈی این اے رپورٹ سے پتہ چلا کہ مبینہ بچوں کا ملزم خاتون سے کوئی تعلق نہیں جبکہ ان سعودی خاندانوں سے ان بچوں کا نسب ثابت ہوگیا جو دو عشرے قبل بچوں کے اغوا کی رپورٹیں درج کرائے ہوئے تھے۔

پبلک پراسیکیوشن کے ترجمان نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم نے 21 ملزمان اور گواہان سے 40 میٹنگیں کیں۔ اس حوالے سے 247 عدالتی کارروائیاں کیں۔ آخر میں پانچ افراد پر فرد جرم عائد کی گئی- ان میں سے ایک مملکت سے فرار ہے۔ پبلک پراسیکیوشن نے انٹرپول سے اسے مملکت واپس لانے کی درخواست کردی ہے۔

پبلک پراسیکیوشن کے ترجمان نے بتایا کہ تحقیقات سے ثابت ہوا کہ اغوا کیس کی کلیدی ملزم سعودی خاتون ہے۔ اس نے جان بوجھ کر زچہ بچہ ہسپتال سے تین شیرخوار اغوا کیے۔ اس نے مغوی بچوں کو ذہنی، مالی اور معنوی دکھ دیے۔ ان کے رشتہ داروں کو بیس برس سے زیادہ مدت تک اپنے بچوں سے محروم رکھا۔

خاتون نے دوسرے اور چوتھے ملزمان کے ساتھ ساز باز کرکے سرکاری اداروں کے سامنے جھوٹے بیانات دلوائے۔ ان کے خلاف جادو ٹونے کے الزماات بھی ہیں جبکہ ان پر بچوں کو تعلیم، قومی شناخت، شہری و نجی حقوق سے محروم کرنے اور انویسٹی گیشن بورڈ کو گمراہ کرنے کے الزامات بھی لگائے گئے۔

پبلک پراسیکیوشن کے ترجمان نے بتایا کہ ملزم ثانی بھی سعودی شہری ہے- اس پر زچہ بچہ ہسپتال سے نومولود کے اغوا، سرکاری اداروں کے سامنے غلط بیانی سے کام لینے، جھوٹا دعوی کرکے بچے کا شناختی کارڈ نکلوانے، دو بچوں کی اغوا کار خاتون کے جرم پر پردہ ڈالنے جیسے الزامات عائد کیے گئے۔

تیسرے ملزم کا تعلق یمن سے ہے اس پر تیسرے بچے کے اغوا میں شریک پارٹی بننے کا الزام ہے- دوسرا الزام یہ ہے کہ اس نے اغوا کا رخاتون کے جرم پر پردہ ڈالا اور اس سے جو کچھ بچوں کو جانی و مالی و ذہنی اور اخلاقی نقصان پہنچا اس کا بھی اسے ذمہ دار تسلیم کیا گیا۔

چوتھا ملزم سعودی ہے۔ اس پر بچوں کی پیدائش سے متعلق جھوٹا بیان دینے، بچوں کے جھوٹے نسب نامے میں حصہ لینے اور انہیں جانی و مالی اور ذہنی نقصان پہنچانے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ پانچواں ملزم بھی سعودی شہری ہے اور مملکت سے مفرور ہے۔ اس پر غلط بیانی کا الزام ہے۔

Comments

- Advertisement -