تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

نیا کپتان کون؟ سفارشات چیئرمین پی سی بی کو ارسال

پاکستان کرکٹ ٹیم کا وائٹ بال میں نیا کپتان...

عورت مارچ، وہ پوسٹر جو’وائرل‘ نہ ہوسکے

عورت مارچ کے سوشل میڈیا پر جو پوسٹر وائرل ہوئے ، ان کے شور میں وہ پوسٹر کہیں دب کر رہ گئے جن کا ہر خاص و عام تک پہنچنا ضروری تھا، ہم آپ کے لیے لائے ہیں کچھ ایسے ہی پوسٹرز جو شیئر نہ ہوسکے۔

آٹھ مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ملک کے مختلف شہروں میں جہاں بہت سے سیمنارز، تقاریب اور واک کا انعقاد کیا گیا وہیں کچھ شہروں میں عورت مارچ کا بھی اہتمام ہوا۔

پاکستان ایک ایسا ملک ہےجہاں خواتین قوانین کاموثر نفاذ نہ ہونے کے سبب آج بھی اپنے بہت سے بنیادی حقوق کے لیے جدوجہد کررہی ہیں ، لیکن گزشتہ سال اور اس سال ان مسائل پر بات ہونے کے بجائے ’عورت مارچ‘ کے مخصوص پلے کارڈ ز ہی سوشل میڈیا اور تبصروں کی زینت بنے رہے۔

پلے کارڈز پر لکھی گئی زبان کو کچھ لوگوں نے نازیبا قراردیا تو کچھ نے ان کارڈز کو بنیادی مسئلے سے غیر متعلق بھی قراردیا۔ اس سارے شور میں خواتین کے اصل حقوق کی جو آواز تھی وہ کہیں دب سی گئی۔

یقیناً عورت مارچ کی خواتین کے مطالبات بھی ان کا حق ہیں لیکن ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ترجیحات کیا ہیں۔ کیا اگر معاشرے کے مرد خراب زبان استعمال کرتے ہیں تو خواتین کو بھی اتنی ہی خراب زبان استعمال کرنے کا حق چاہیے، یا پھر درج ذیل مسائل کو زیادہ ترجیح دینی چاہیے۔

سوشل میڈیا پر ہم نے کئی جگہ کچھ دبی دبی آوازیں دیکھیں جو کہنا چاہ رہی تھیں کہ پاکستان میں عورت کے بنیادی مسائل آخر ہیں کیا ، اور ہم کن چیزوں پر بات کررہے ہیں۔

ہم نے ان تمام چیزوں کا جائزہ لینے کے بعد ان میں سے کچھ اہم نکات چنے اور اب انہیں یہاں آپ کی خدمت پیش کررہے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر یہ مسائل حل ہوجائیں تو پھر کسی عورت کو کسی بھی قسم کے مارچ میں ’واہیات نعروں‘ کے ساتھ شرکت کی ضرورت نہیں ہوگی۔

اہم نکات

  • لڑکی کی پیدائش پر بھی ویسے ہی خوشی منانی چاہیے جیسے لڑکے کی پیدائش پر منائی جاتی ہے ، اور بیٹی کی پیدائش پر عورت کو قصور وار نہ ٹھہرایا جائے۔
  • تعلیم ، غذا اور اندازِ زندگی میں برابر کا حق دار تسلیم کیا جائے اور دونوں کی پرورش یکساں خطوط پرکی جائے۔
  • بچے کی پیدائش پر ورکنگ خواتین کو قانون کے مطابق تنخواہ کے ساتھ چھٹی دی جائے ، اور کا م کی جگہوں پر ورکنگ خواتین کے بچوں کی نگہداشت کا انتطام کیا جائے۔
  • خواتین کو جائیداد میں ان کا جائز حصہ ریاستی قوانین کی روشنی میں دیا جائے۔
  • نوکریوں میں خواتین کو برابر کے مواقع فراہم کیے جائیں اور انہیں کام کے مطابق مردوں کے برابر تنخواہ دی جائے۔
  • شادی بیاہ کے معاملے میں خواتین کی رائے کو مقدم رکھاجائے اور کسی بھی جبر یا کسی اور سماجی مسئلے کے تحت ان پر کوئی رشتہ مسلط نہ کیا جائے۔
  • کھیتوں ، کارخانوں اور گھروں میں کام کرنے والی خواتین کے حقوق کو تسلیم کیا جائے اور انہیں ان کے کام کا باقاعدہ معاوضہ ادا کیا جائے۔ خواتین سے جبری مشقت لینے کا سلسلہ فی الفوربند کیا جائے۔

یہ وہ چند آوازیں تھی جو سوشل میڈیا پر مناسب پذیرائی حاصل نہ کرسکیں اور عورت مارچ کے پوسٹروں پرہونے والی تنقید کے شور میں دب کر رہ گئیں۔ کیا آپ ان مطالبات سے متفق ہیں، اپنی رائے کا اظہار کمنٹ میں کریں۔

Comments

- Advertisement -
فواد رضا
فواد رضا
سید فواد رضا اے آروائی نیوز کی آن لائن ڈیسک پر نیوز ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں‘ انہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ تاریخ سے بی ایس کیا ہے اور ملک کی سیاسی اور سماجی صورتحال پرتنقیدی نظر رکھتے ہیں