عالمی بینک کی جانب سے جوہری توانائی کی مالی معاونت پر دہائیوں پرانی پابندیوں کو ختم کردیا ہے۔
غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق عالمی بینک نے جوہری توانائی کے شعبے میں دوبارہ داخل ہونے کا اعلان کردیا ہے جو کہ کئی دہائیوں بعد ایک بڑی پالیسی تبدیلی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
ورلڈ بینک کے صدر اجے بانگا نے گزشتہ روز بتایا کہ یہ فیصلہ ترقی پذیر ممالک میں بڑھتی ہوئی بجلی کی طلب کو پورا کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ورلڈ بینک اب اقوامِ متحدہ کی جوہری نگران ایجنسی IAEA کے ساتھ قریبی تعاون کرے گا تاکہ جوہری عدم پھیلاؤ کی نگرانی اور مؤثر ریگولیٹری نظام کی تشکیل میں مدد فراہم کی جاسکے۔
اُنہوں نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک میں بجلی کی طلب 2035 تک دوگنی سے زیادہ ہو جائے گی اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہر سال توانائی پیداوار، گرڈز، اور اسٹوریج پر سرمایہ کاری کو موجودہ 280 ارب ڈالر سے بڑھا کر تقریباً 630 ارب ڈالر کرنا ہوگا۔
ورلڈ بینک کے صدر کے مطابق ہم ان ممالک میں موجودہ جوہری ری ایکٹرز کی مدت بڑھانے کی کوششوں میں مدد کرنے کے خواہاں ہیں اور بجلی کے گرڈز اور متعلقہ انفرا اسٹرکچر کی بہتری کے لیے تعاون فراہم کریں گے۔
واضح رہے کہ بانگا نے 2023 میں ورلڈ بینک صدر کا عہدہ سنبھالا تھا اور تب سے وہ توانائی پالیسی میں تبدیلیوں کے لیے کوششوں میں مصروف ہیں۔
روس نے ایران سے افزودہ یورینیم نکالنے کی پیشکش کردی
اگرچہ ورلڈ بینک نے جوہری توانائی میں سرمایہ کاری کے لیے دروازے کھول دیے ہیں، ورلڈ بینک کے صدر نے واضح کیا کہ ابھی بورڈ اس بات پر متفق نہیں ہو پایا کہ آیا بینک کو گیس کی پیداوار (upstream gas) میں بھی شامل ہونا چاہیے اور اگر ہاں تو کن شرائط کے تحت ایسا ہوسکتا ہے۔