دنیا بھر میں آج کمپیوٹر شناسی کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا کو ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں کی کمپیوٹر تک پہنچ، اور غیر ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں کی کمپیوٹر سے محرومی کے فرق سے آگاہ کرنا ہے۔
عالمی ادارے انٹرنیٹ سوسائٹی کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی 95 فیصد سے زائد آبادی کو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے باقاعدہ استعمال کی سہولت میسر ہے۔ اس ضمن میں پہلے نمبر پر آئس لینڈ ہے جہاں کی 96 فیصد سے زائد آبادی انٹرنیٹ کی باقاعدہ استعمال کنندہ ہے۔
آئس لینڈ کی بقیہ 3 سے 4 فیصد آبادی انٹرنیٹ کے استعمال کو پسند نہیں کرتی اور ان میں زیادہ تعداد معمر افراد کی ہے۔
انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد 3 ارب سے تجاوز *
دوسری جانب ادارے کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں 2 فیصد سے بھی کم آبادی کو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے۔ اس فہرست میں سب سے آخری نمبر پر افریقی ملک نائجر ہے جہاں کی پونے 2 فیصد آبادی کو جدید دور کی یہ سہولیات میسر ہیں۔
ادارے کی فہرست کے مطابق پاکستان کی 10.9 فیصد آبادی جبکہ بھارت کی 15.1 فیصد آبادی کو کمپیوٹر تک رسائی حاصل ہے۔
دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ ان ممالک کے درمیان کمپیوٹر کے استعمال میں بھی فرق پایا جاتا ہے جس کے باعث کئی طبی، نفسیاتی اور سماجی مسائل پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
ایک بین الاقوامی ادارے او سی ای ڈی کی جانب سے کی جانے والی تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں امیر ممالک اور غریب ممالک سے تعلق رکھنے والے بچے انٹرنیٹ کو مختلف سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق وہ بچے جو خوشحال اور آسودہ گھرانوں اور ممالک سے تعلق رکھتے ہیں وہ انٹرنیٹ پر خبریں پڑھتے ہیں اور ایسی چیزیں سرچ کرتے ہیں جس سے ان کی معلومات میں اضافہ ہوسکے۔
اس کے برعکس کم خوشحال یا غریب گھرانوں اور ممالک کے بچے اپنا زیادہ وقت انٹرنیٹ پر گیم کھیلتے اور دوستوں سے چیٹنگ کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہ وہ فرق ہے جس سے ان بچوں کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے اور وہ اپنی پڑھائی اور دیگر معاملوں میں بہتر کارکردگی دکھانے کے قابل ہوتے ہیں۔ یہ استعمال امیر بچوں کے بہتر مستقبل کی بھی ضمانت ثابت ہوسکتا ہے۔
انٹرنیٹ کا زیادہ استعمال صحت کے لیے خطرناک *
اس کے برعکس غریب بچے انٹرنیٹ پر بے مقصد چیزوں میں وقت ضائع کرنے کے عادی بن جاتے ہیں جس کے باعث ان کی صحت اور ذہنی توجہ متاثر ہوتی اور پڑھائی کے دوران ان کی کارکردگی میں کمی دیکھنے میں آتی ہے۔
ماہرین نے بتایا کہ یہ عادت آگے چل کر خاص طور پر نوکری کے حصول کے لیے ان کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔