آئی سی سی ورلڈ کپ کا چھٹا ایڈیشن نیا چیمپئن ساتھ لایا اور وہ ٹیم چیمپئن بنی جس کو سب بے بی ٹیم کہتے تھے یعنی سری لنکا۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے ورلڈ کپ 1996 کی میزبانی پہلی بار تین ممالک چیمپئن پاکستان اور اس کے پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ ایشیا کے تیسرے کرکٹنگ ملک سری لنکا کو دی تاہم وہاں تامل ناڈو کی دہشتگردی کے باعث کئی بڑی ٹیموں کے جانے پر تحفظات تھے اور آخر وقت میں آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے سری لنکا نہ جانے کے باعث سری لنکا کو واک اوور ملا، دوسرے معنوں میں بغیر کھیلے فاتح رہا اور یہ دو قیمتی فتوحات اس کے چیمپئن بنانے میں سب سے بڑی سیڑھی ثابت ہوئیں۔
ورلڈ کپ 1996 میں کیا کیا تبدیلیاں کی گئیں؟
گزشتہ ورلڈ کپ کے برعکس اس عالمی ایونٹ میں سب سے زیادہ 12 ٹیموں نے حصہ لیا۔ اس سے قبل 1971، 1975، 1983 اور 1987 کے ورلڈ کپ 8 ٹیموں پر مشتمل کھیلے گئے تھے جب کہ 1992 کے ورلڈ کپ میں جنوبی افریقہ کے اضافے سے ٹیموں کی تعداد 9 ہوگئی تھی اور یہ رابن راؤنڈ فارمیٹ کے تحت کھیلا گیا تھا تاہم 1996 میں ورلڈ کپ کے چھٹے ایڈیشن میں کینیا، عرب امارات اور ہالینڈ کی ٹیموں کا اضافہ ہوا جنہیں 6، 6 کے دو گروپس میں یوں تقسیم کیا گیا۔
گروپ اے میں بھارت، ویسٹ انڈیز ، آسٹریلیا، سری لنکا، زمبابوے اور کینیا جب کہ گروپ بی میں پاکستان، انگلینڈ، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ، عرب امارات اور ہالینڈ شامل تھیں۔
ورلڈ کپ 1996 میں پہلی بار راؤنڈ میچز کے اختتام پر کوارٹر فائنل راؤنڈ متعارف کرایا گیا جس میں سے ہر گروپ کی ٹاپ تین ٹیموں نے رسائی حاصل کرنا تھی اور یہاں رکاوٹیں عبور کرتے اور جیتتے ہوئے اگلے مرحلے سیمی فائنل اور پھر فائنل تک پہنچنا تھا۔
پہلی بار ورلڈ کپ کسی تین ممالک کے 26 اسٹیڈیمز میں شیڈول کیا گیا جس میں فائنل سمیت 37 میچز کھیلے جانے تھے تاہم صرف 35 کھیلے گئے کیونکہ گروپ اے کے ابتدائی دو میچز آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے سری لنکا نہ جانے کی وجہ سے کھیلے ہی نہ جا سکے۔ تاہم خطے کی دو ٹیموں پاکستان اور بھارت نے سری لنکا سے جذبہ خیر سگالی کے طور پر ان کی سرزمین پر جاکر ایک مشترکہ میچ کھیلا جس نے دنیائے کرکٹ کو محبت اور امن کا پیغام دیا۔
اس ورلڈ کپ کے قوانین ورلڈ کپ 1992 کے قوانین سے مختلف تھے۔ بارش سے متاثر ہونے والے میچوں کے متعلق قانون کو 1992 کے ورلڈ کپ میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جس کے بعد اس بار اسے تبدیل کیا گیا اور اسکورنگ پیٹرن کو معیار بنایا گیا جب کہ بارش سے نہ ہونے والے میچوں کے لیے اگلا دن ریزرو رکھا گیا۔
یہ ایونٹ اس لیے بھی قابل ذکر تھا کہ صرف 9 سال کے قلیل عرصے میں یہ دوسری بار برصغیر ایشیا کی سر زمین پر منعقد ہو رہا تھا جو مستقبل قریب میں کرکٹ میں ایشیا کی حکمرانی کی طرف ایک اشارہ تھا۔ 1992 کے چیمپئن پاکستان نے 1996 کے ورلڈ کپ کی میزبانی حاصل کرنے کے لیے بھی زبردست جنگ لڑی تھی۔
1992 میں ابتدائی 15 اوورز میں دو فیلڈرز باہر رکھنے کا تجربہ اس ورلڈ کپ میں الٹا پڑ گیا تاہم اس سے ہائی اسکور میچز سامنے آئے اور سنسنی خیزی نے ون ڈے کرکٹ کی مقبولیت کو مزید دوام بخشا۔ بھارت، سری لنکا اور آسٹریلیا کے اوپنرز نے اس ورلڈ کپ میں مار دھاڑ والی اننگز اسٹارٹ کیں جو آہستہ آہستہ تمام ٹیموں کا وطیرہ بن گیا۔
ورلڈ کپ کا آغاز 14فروری کو بھارتی شہر احمد آباد میں انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے درمیان افتتاحی مقابلے سے ہوا جو 33 دن بعد لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں سری لنکا کی فتح کے ساتھ شاندار طریقے سے اختتتام پذیر ہوا۔
ہر گزرتے وقت کے ساتھ ورلڈ کپ کی مقبولیت نئے رنگ میں رنگتی گئی گزشتہ ورلڈ کپ نے کرکٹ کو رنگین کیا تو یہ ورلڈ کپ رنگوں کے ساتھ میوزک سے بھی میگا ایونٹ کو سجا گیا ہر ملک نے اپنی اپنی ٹیموں کے جوش اور جذبے کو بڑھانے کے لیے ولولہ انگیز ترانے بنائے۔
جب کرکٹنگ ترانے شائقین کا جوش وجذبہ بڑھانے لگے:
پاکستان میں ایک طرف ’ہم جیتیں گے‘ کا ترانہ بج رہا تھا تو دوسری جانب جذبہ جنون گا کر ہمت جگائی جا رہی تھی وہیں ’ہم ہیں پاکستانی ہم تو جیتیں گے بھئی جیتیں گے‘ کے ترانے نے نیا جوش شائقین میں بھر دیا تھا اور یہ سن کر تو سب کو یہ امید ہو چلی تھی کہ ٹرافی گھر سے باہر نہیں جائے گی سب کرکٹ بخار میں مبتلا تھے لیکن پھر ہوا یوں کہ جیسے جیسے فروری کے ٹھنڈے دن ختم ہوئے تو گرمی کی آمد کی خبر دیتے مارچ نے شائقین کی امیدوں کو پگھلا دیا اور جب ورلڈ کپ کی سیمی فائنل لائن اپ مکمل ہوئی تو پاکستان سے عمران خان کی قیادت میں جیتا گیا ورلڈ کپ چھن چکا تھا کیونکہ گرین شرٹس فائنل فور میں بھی جگہ نہ بنا سکی تھی۔ یوں ورلڈ کپ کرکٹ کی روایت قائم رہی اور میزبان ملک اپنے ہوم گراؤنڈ پر چیمپئن نہ بن سکا تاہم اسی خطے سے اٹھنے والی ایک کمزور ٹیم ورلڈ چیمپئن بن کر اب دنیائے کرکٹ کی تگڑی ٹیموں میں شمار ہوتی ہے جس کو دنیا سری لنکا کے نام سے جانتی ہے۔
جاوید میاں داد نے بنایا منفرد ریکارڈ:
پاکستان کے سابق کپتان اور لیجنڈ بلے باز جاوید میاں داد 1996 میں اپنے کیریئر کا چھٹا اور آخری ورلڈ کپ کھیل رہے تھے اور اس وقت وہ دنیا کے پہلے بلے باز بنے جنہوں نے تمام ورلڈ کپ کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا بعد ازاں سابق بھارتی کپتان سچن ٹنڈولکر 2011 میں اپنا چھٹا ورلڈ کپ کھیل کر اس ریکارڈ میں میاں داد کے برابر کے حصے دار بنے اور کرکٹ کے تیز ہونے کے ساتھ کرکٹرز کے انٹرنیشنل کیریئر جتنے مختصر ہوتے جا رہے ہیں تو یہ ریکارڈ ٹوٹنا نا ممکن لگتا ہے۔
جاوید میاں داد نے اپنا آخری میچ روایتی حریف بھارت کے خلاف کوارٹر فائنل کھیلا جس میں وہ 37 رنز بنا کر ٹاپ اسکورر رہے۔
ورلڈ کپ 1996 میں ٹیموں کی قیادت:
اس ورلڈ کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی قیادت وسیم اکرم کے سپرد تھی جب کہ عامر سہیل، سلیم ملک، اعجاز احمد، انضمام الحق، سعید انور، جاوید میانداد، ثقلین مشتاق ، مشاق احمد، رمیز راجا، وقار یونس، عاقب جاوید، عطا الرحمن اور راشد لطیف شامل تھے۔
ان کے علاوہ بھارت (اظہر الدین)، ویسٹ انڈیز (رچرڈ سن)، آسٹریلیا (مارک ٹیلر)، جنوبی افریقہ (ہنسی کرونیے)، نیوزی لینڈ (لی جرمون)، انگلینڈ (مائیک ایتھرٹن)، سری لنکا (ارجنا رانا ٹنگا)، کینیا (مور اوڈوبے)، عرب امارات (سلطان زروانی)، زمبابوے (اینڈی فلاور) اور ہالینڈ کی قیادت اسٹیفن سوبرز کر رہے تھے۔
اس ورلڈ کپ میں قائم ہونے والے ریکارڈز:
1996 میں ورلڈ کپ کے چھٹے ایڈیشن میں کئی نئے ریکارڈز بنے۔ ایونٹ میں بولرز نے مجموعی طور پر 3213.4 اوورز کیے۔ 463 کھلاڑی آؤٹ ہوئے۔ بلے بازوں نے 14988رنز بنائے۔ ٹورنامنٹ میں مجموعی طور پر 16سنچریاں اور 69 نصف سنچریاں بنیں، مارک وا نے سب سے زیادہ 3 سنچریاں بنائیں۔ اسٹیو واہ ورلڈ کپ میں مسلسل دو سنچریاں بنانے والے پہلے بیٹر بنے۔ سب سے زیادہ آسٹریلیا نے 1686 رنز بنائے اور زیادہ اوورز بھی کیگنروز نے کھیلے یعنی 336 اوورز کا سامنا کیا۔ سری لنکا کا کینیا کے خلاف 398 رنز بڑا مجموعہ بن گیا، زیادہ وکٹیں نیوزی لینڈ کی 49 گریں۔
اس ورلڈ کپ میں بھارت کے سچن ٹنڈولر 523 رنز بنا کر ایونٹ کے ٹاپ اسکورر جب کہ انیل کمبلے 15 وکٹیں حاصل کرکے ٹاپ بولر رہے۔ ایان ہلی نے آسٹریلیا کے بطور وکٹ کیپر سب سے زیادہ12 شکار کیے۔ جنوبی افریقہ کے گیری کرسٹن نے 188 ناٹ آئوٹ رنز کی سب سے بڑی انفرادی اننگز کھیلی۔ زمبابوے کے پال اسٹرانگ نے 5/21 کی کفایتی اور انفرادی بولنگ کی۔ انیل کمبلے نے 8 کیچز پکڑے۔
ورلڈ کپ کے ناقابل یقین میچوں میں کینیا کی ویسٹ انڈیز کے خلاف پونے میں شاندار فتح رہی جب ماضی کی کالی آندھی کینیا کے 169 رنز کے معمولی ہدف کے تعاقب میں صرف 93 رنز پر دم توڑ گئی۔
گروپ اے سے آسٹریلیا نے ٹاپ کیا اور سری لنکا واک اوور کی وجہ سے ملنے والے چار قیمتی پوائنٹس اور میزبان بھارت کو شکست دینے کے ساتھ کینیا سے ملنے والی فتح کی وجہ سے کوارٹر فائنل میں پہنچ گیا۔ میزبان بھارت کے ساتھ ویسٹ انڈیز بھی اسی گروپ سے کوارٹر فائنل میں پہنچیں۔ گروپ بی میں جنوبی افریقہ نے اپنے تمام میچز جیت کر ٹاپ کیا اس کے پاکستان، نیوزی لینڈ اور انگلینڈ آگے آئے۔
کوارٹر فائنلز:
پہلا کوارٹر فائنل انگلینڈ اور سری لنکا کے درمیان فیصل آباد میں ہوا جس میں بازی بلند ہمت آئی لینڈرز کو ملی مرد بحران جے سوریا 82 رنز بنا کر مین آٖف دی میچ رہے۔
دوسرا کوارٹر فائنل روایتی حریفوں پاکستان اور بھارت کے درمیان بنگلور میں کھیلا گیا جس میں بھارت نے 288 رنز کا ٹارگیٹ دیا لیکن پاکستان یہ میچ 39 رنز سے ہار گیا۔
میچ سے قبل اچانک ریگولر کپتان وسیم اکرم کے یہ اہم میچ نہ کھیلنے نے سوالات کھڑے کیے پھر جب پاکستان جیت کی جانب گامزن تھا تو عامر سہیل کی پرشاد سے ہونے والی تکرار جس کے بعد عامر سہیل اپنا بیٹنگ ٹیمپو کھو بیٹھے اور کریز پر سیٹ ہونے کے بعد اگلی ہی گیند پر آؤٹ ہوکر پاکستان کو شکست کے گڑھے میں گرا گئے جس کو آنے والے دیگر بلے باز بھی نہ اٹھا سکے یوں ورلڈ کپ پاکستان کے ہاتھ سے پھسل گیا اور ٹیم کو کئی الزامات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
تیسرے کوارٹر فائنل میں کراچی میں ویسٹ انڈیز نے جنوبی افریقہ کو زیر کیا برائن لارا نے سنچری اسکور کی تو چوتھا کوارٹر فائنل آسٹریلیا کے نام رہا جس نے بھارت کے میدان میں نیوزی لینڈ کو شکست سے دوچار کیا۔
پہلا سیمی فائنل:
پہلا سیمی فائنل 13 مارچ کو کولکتہ میں بھارت اور سری لنکا کے درمیان کھیلا گیا جس میں ماہرین بھارت کو فیورٹ قرار دے رہے تھے لیکن جذبوں نے سارے تجزیوں کو پیچھے چھوڑ دیا اور سری لنکا بھارت کو شکست دے کر پہلی بار فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔
اس میچ میں سری لنکا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 50 اوورز میں 8 وکٹوں کے نقصان پر 251 رنز بنائے جس کے جواب میں بھارتی سپر اسٹار بلے بازوں سے سجی بیٹنگ لائن ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ 35 ویں اوورز میں بھارت کی ٹیم گرتے پڑتے 8 وکٹوں پر 120 رنز تک ہی پہنچی تھی کہ اپنی ٹیم کی یقینی ہار کو دیکھتے ہوئے شائقین کرکٹ بپھر گئے اور اسٹیڈیم میدان جنگ بن گیا۔
اس روز دنیا نے کسی اسپورٹس اسٹیڈیم میں عدم برداشت کا اتنا برا رویہ شاید پہلی بار دیکھا ہوگا۔ اس مشتعل ہجوم کو پولیس اور سیکیورٹی ادارے بھی قابو کرنے میں ناکام رہے جس کے بعد امپائرز نے میچ صورتحال کو دیکھتے ہوئے سری لنکا کو فاتح قرار دے دیا۔
دوسرا سیمی فائنل:
ورلڈ کپ 1996 کا دوسرا سیمی فائنل 14 مارچ کو موہالی میں کھیلا گیا ٹیمیں تھیں آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز۔
یہ سیمی فائنل کالی آندھی کو ہارنا ہمیشہ یاد رہے گا کیونکہ یہ اس نے یہ ایک جیتا ہوا میچ ہار ا تھا۔ 15 رنز کے مجموعے پر 4 وکٹیں کھونے والی آسٹریلوی ٹیم 207 رنز بنانے میں کامیاب ہوئی۔ جواب میں ویسٹ انڈیز 42 اوورز میں 2 وکٹوں پر 165 رنز بنا چکا تھ۔ 48گیندوں پر 43 رنز درکار تھے اور فتح یقینی تھی کہ اچانک لگا کہ کوئی طوفان آیا جس میں ویسٹ انڈیز کی 8 وکٹیں 37 رنز بنانے کے دوران خس وخاشاک کی طرح بہہ گئیں۔ آسٹریلیا 5 رنز کے ساتھ فاتح رہا۔شین وارن نے طوفانی اسپیل میں 6 رنز دے کر 3 وکٹیں حاصل کیں اور مین آف دی میچ کے اصل حقدار قرار پائے۔
روایت شکن فائنل مقابلہ:
1996 کا ورلڈ کپ میں یہ روایت تو من وعن نہ ٹوٹی کہ میزبان فاتح رہا لیکن مشترکہ میزبان ضرور چیمپئن بنا۔ دوسری روایت یہ ٹوٹی کہ پہلی مرتبہ پہلے فیلڈنگ کرنے والی ٹیم نے فائنل جیتا۔
یہ فائنل مقابلہ 17 مارچ کو لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں کھیلا گیا جس میں آسٹریلیا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 50 اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 241 رنز بنائے۔ آسٹریلوی اننگ میں ایک وقت ایسا بھی تھا کہ کینگروز ٹیم کے 100 رنز 19 ویں اوور میں مکمل ہو گئے تھے لیکن پھر درمیانی اوورز میں سری لنکن بولرز نے شاندار واپسی کرتے ہوئے 170 رنز کے مجموعے تک 5 اہم وکٹیں گرا دیں جس نے تیز رفتاری سے بننے والے اسکور کے آگے بریک لگائے۔
آسٹریلیا کی جانب سے 242 رنز کے ہدف کے تعاقب میں جب سری لنکن بلے بازوں نے بیٹنگ شروع کی تو مار دھاڑ سے بھرپور بیٹنگ کے لیے مشہور جے سوریا کی جلد پویلین واپسی نے کینگروز کی ہمت بندھائی۔ 23 کے مجموعے پر کالو وتھرنا آؤٹ ہوئے تو سری لنکا کی مشکلات بڑھیں لیکن ایسے میں ارونڈا ڈی سلوا مرد بحران بن کر آئے اور گراؤنڈ میں آتے ہی پراعتماد انداز میں شاٹس کھیلتے ہوئے ہدف کی جانب پیش قدمی جاری رکھی۔ اس موقع پر گروسنہا کو دو ڈراپ کیچ اور اسٹمپڈ مس ہونے پر دو چانس ملے جس نے سری لنکا کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔
ارونڈا ڈی سلوا نے 46 ویں اوور میں نہ صرف اپنی سنچری مکمل بلکہ اسی اوور کی آخری گیند کو باؤنڈری کے پار پہنچا کر اپنی ٹیم کو تین اوور پہلے ہدف تک پہنچایا اور عالمی چیمپئن بنایا۔
یہ وہ یادگار دن تھا جب سری لنکا کے کپتان نے اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بینظیر بھٹو کے ہاتھوں ورلڈ کپ کی ٹرافی وصول کی اور جب سے یہ بے بی ٹیم دنیائے کرکٹ کی تگڑی ٹیموں میں سے ایک شمار ہونے لگی جس نے 6 ایشیا کپ اور ایک ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ بھی جیت رکھا ہے۔
ورلڈ کپ 1992، پاکستان تمام رکاوٹیں عبور کرکے کرکٹ کا بادشاہ بن گیا، دنیا حیران رہ گئی
اس مضمون کے لیے عمران عثمانی کی کتاب ’’ورلڈ کپ کہانی‘‘ سے بھی مدد لی گئی ہے۔