آئی سی سی ورلڈ کپ کا ساتواں ایڈیشن 1999 میں ایک بار پھر کرکٹ کی جنم بھومی انگلینڈ میں منعقد ہوا جس میں آسٹریلیا نے دوسری بار ورلڈ چیمپئن بننے کا اعزاز اپنے نام کیا۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے 16 سال بعد انگلینڈ کو ایک بار پھر کرکٹ ورلڈ کپ کی میزبانی کا شرف بخشا اور 1999 میں عالمی کپ کا ساتواں ایڈیشن انگلش سر زمین پر کھیلا گیا جو 20 ویں صدیقی کا آخری ورلڈ کپ بھی تھا۔ اس عالمی کپ میں سری لنکا اپنے دفاع میں ناکام رہا۔ آسٹریلیا نے نا قابل یقین یکطرفہ فائنل میچ میں پاکستان کو آسانی سے زیر کرکے دوسری بار ورلڈ چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا اور اس کے ساتھ ہی کینگروز کا کرکٹ پر طویل حکمرانی کا دور شروع ہوا۔
ورلڈ کپ 1999 کی کچھ خاص باتیں:
ساتواں ورلڈ کپ 14مئی سے 20 جون تک کھیلا گیا انگلینڈ میں پہلی بار ورلڈ کپ کے 42 میچز کھیلے گئے۔ اسی ایونٹ میں پہلی بار سپر سکس راؤنڈ متعارف کرایا گیا۔
ٹورنامنٹ میں مجموعی طور پر 12 ٹیموں نے دو گروپ کی صورت میں شرکت کی اور ہر گروپ کی تین ٹاپ ٹیموں نے سپر سکس کے لیے کوالیفائی کیا۔
گروپ اے میں بھارت، انگلینڈ، سری لنکا، جنوبی افریقہ، زمبابوے اور کینیا جب کہ گروپ بی میں آسٹریلیا، پاکستان، ویسٹ انڈیز، نیوزی لینڈ، بنگلہ دیش اور اسکاٹ لینڈ کی ٹیمیں شامل تھیں۔
گروپ اے سے بھارت، زمبابوے اور جنوبی افریقہ جبکہ گروپ بی سے پاکستان، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے کوالیفائی کیا جب کہ حیرت انگیز طور پر دفاعی چیمپئن سری لنکا کے ساتھ انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز بھی پہلے مرحلے میں ہی ورلڈ کپ سے باہر ہو گئیں۔
سپر سکس مرحلے میں پہنچنے والی ٹیموں کی اگلی مرحلے سپر فور میں رسائی کے لیے پہلے راؤنڈ کے پوائنٹس بھی شامل کیے گئے تھے جس کی وجہ سے پاکستان کو فائدہ ملا اور ان سے سپر سکس میں صرف ایک کامیابی کے باوجود گروپ پوائنٹس کی بدولت سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کر لیا۔
ورلڈ کپ کے آغاز سے قبل پاکستان ٹیم کو کوئی زیادہ اہمیت نہیں دے رہا تھا تاہم ٹورنامنٹ میں مجموعی طورپر پاکستان کی کارکردگی بہت اچھی رہی۔ نا مساعد حالات، سخت سردی اور وارم اپ میچز کھیلنے کا موقع نہ ملنے کے باوجود وسیم اکرم کی قیادت میں گرین شرٹس نے گروپ کے چار میچز لگا تار جیتے اور اس تباہ کن پرفارمنس کی وجہ سے بک میکرز نے اس ٹیم کو ’’فیورٹ‘‘ تسلیم کر لیا۔
جب ورلڈ کپ کا آغاز ہوا تو عام لوگوں کا خیال تھا کہ ورلڈ کپ میں انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کی ٹیمیں کامیاب ہوں گی ، کیونکہ وہ اس موسم میں اور ایسی وکٹوں پر کھیلنے کے عادی ہیں۔ ایشیائی ٹیمیں گرم ممالک سے تعلق رکھتی ہیں اس لیے ان کا چانس تو کم تھا، افتتاحی میچ نے اس شبے کو درست ثابت کر دیا کہ سری لنکا کو انگلینڈ نے با آسانی ہرا دیا۔
اس کے بعد فیورٹ جنوبی افریقہ نے بھارت کو 4 وکٹوں سے ہرایا، ایشیا کی دو ٹیموں کا حشر سامنے تھا اور پاکستان کا پہلا میچ بہت مشکل تھا کیونکہ مدمقابل ویسٹ انڈیز کی ٹیم کافی مضبوط تھی، جس کی قیادت برائن لارا کر رہے تھے اور انہیں انگلینڈ میں کھیلنے کا خاص تجربہ تھا ، پھر ان کی ٹیم میں کورٹنی واش اور امبروز جیسے تجربہ کار باؤلرز تھے۔
تاہم پاکستان جو شروع سے نا ممکن کو ممکن بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اسی صلاحیت کے باعث ناقابل پیشگوئی ٹیم کہلاتی ہے اس نے نہ صرف ابتدائی میچ میں ویسٹ انڈیز کو پچھاڑا بلکہ آسٹریلیا ،نیوزی لینڈ کو روندنے کے بعد اسکارٹ لینڈ کو بھی با آسانی ہرا دیا لیکن آخری گروپ میچ میں پہلی بار ورلڈ کپ کھیلنے والی ٹیم بنگلہ دیش سے ہار گئی جس نے شائقین کرکٹ کو ششدر کر دیا۔
اس ہار سے گوکہ پاکستان پر کوئی اثر نہیں پڑا اور اس نے گروپ کی ٹاپ ٹیم کی حیثیت سے ہی سپر سکس مرحلے میں قدم رکھا لیکن بنگلہ دیش کی اس طرح فتح نے میچ کے نتیجے پر شکوک وشبہات پیدا کر دیے اور یہ تک کہا گیا کہ پاکستان نے جان بوجھ کر یہ میچ بنگلہ دیش کو گفٹ کیا۔
سپر سکس مرحلے میں پاکستان جنوبی افریقہ اور بھارت سے ہار گیا لیکن بھلا ہو پہلے گروپ کے پوائنٹس کا کہ زمبابوے سے ملنے والی واحد فتح کے کو بڑے مارجن سے اپنے نام کر کے گرین شرٹس نے رن ریٹ کو بہتر بنایا اور سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کر لیا۔
سپر سکس میں پاکستان پہلے، آسٹریلیا دوسرے، جنوبی افریقہ تیسرے جب کہ نیوزی لینڈ نے چوتھی نمبر پر رہی یوں سیمی فائنل میں پاکستان اور نیوزی لینڈ جب کہ آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کا ٹکراؤ ہوا۔
پہلا سیمی فائنل:
پہلا سیمی فائنل مانچسٹر میں 16 جون کو ایونٹ کی فیورٹ بن جانے والی ٹیم پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہوا جس میں پاکستان نے 9 وکٹوں سے شاندار فتح حاصل کی۔
نیوزی لینڈ کی ٹیم نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 50 اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 241 رنز بنائے۔ شعیب اختر نے تین کھلاڑیوں کو ٹھکانے لگایا۔ پاکستان نے 242 رنز کا ہدف صرف ایک وکٹ کے نقصان پر حاصل کر لیا میں آف دی میچ راولپنڈی ایکسپریس رہے۔
دوسرا سیمی فائنل:
دوسرا سیمی فائنل آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے درمیان کھیلا گیا جو ورلڈ کپ تاریخ کے دلچسپ اور سنسنی خیز میچوں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے جو برابر رہا لیکن گروپ میچ میں آسٹریلیا کی جنوبی افریقہ کے خلاف فتح نے کینگروز کو فاتح قرار دلوا دیا۔
برمنگھم کے میدان پر 17 جون کو کھیلے گئے اس میچ میں دونوں ٹیمیں 213 رنز بنا کر آؤٹ ہوگئیں۔ اس دور میں سپر اوور نہیں ہوتا تھا اس لیے سابقہ گروپ میچ کے نتیجے پر انحصار جنوبی افریقہ کو لے ڈوبا اور یوں آسٹریلیا نے فائنل کے لیے کوالیفائی کر لیا۔
دوسرے سیمی فائنل کے اس ڈرامائی نتیجے پر پاکستان کے حامیوں نے اطمینان کا اظہار کیا کیونکہ گروپ میچ میں پاکستان نے آسٹریلیا کو شکست دی تھی اور شین وارن کو تو پاکستانی بیٹرز نے اپنے نشانے پر رکھ لیا تھا اور اسی نتیجے کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے فائنل میں آسٹریلیا کے مدمقابل آنے پر گرین شرٹس کو دوبارہ عالمی چیمپئن بننے کا خواب دیکھنا شروع کر دیا تھا لیکن 19 جون کا سورج کچھ اور ارادے لے کر طلوع ہوا۔
گروپ میچ میں آسٹریلیا کو شکست پھر سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کو با آسانی 9 وکٹوں سے ہرانے کے بعد ہر کوئی پاکستانی کپتان وسیم اکرم کو ورلڈ کپ ٹرافی اٹھاتے دیکھ رہا تھا لیکن ہر خواب پورا نہیں ہوتا۔
فائنل مقابلہ:
20 جون 1999 کو پاکستان اور آسٹریلیا کی ٹیمیں جب فائنل کھیلنے کے لیے لارڈز کے میدان میں اتریں تو قومی کپتان وسیم اکرم نے ٹاس جیت لیا اور اس میچ میں واحد یہی چیز تھی جو پاکستان نے جیتی۔
وسیم اکرم نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا جو ڈراؤنا فیصلہ ثابت ہوا کیونکہ پوری ٹیم 132 کے کم ترین اسکور پر آؤٹ ہو گئی جو آج تک کس بھی ورلڈ کپ فائنل کا سب سے کم اسکور ہے۔
سعید انور، انضمام، عامر سہیل، اعجاز احمد، شاہد آفریدی، عبدالرزاق غرض کوئی بھی بلے باز نہ چل سکا۔ 133 رنز کے ہدف کے تعاقب میں آسٹریلیا نے اپنے من کی مراد جلد پالی اور 8 وکٹوں سے شکست دے کر اسٹیو واہ نے ورلڈ کپ کی ٹرافی اٹھائی جو کینگروز کی کرکٹ پر حکمرانی کے ایک طویل دور کا آغاز تھا جو پھر 12 سال تک بلا شرکت غیرے جاری رہا اور کوئی اسے چیلنج نہ کر سکا۔
اس یادگار فائنل کی خاص بات یہ رہی کہ پاکستان کی جانب سے اننگ کا سب سے بڑا اسکور 25 رنز تھا جو کسی بلے باز نے نہیں بنایا تھا بلکہ آسٹریلوی بولرز نے فاضل رنز کی مد میں دیے تھے۔
فائنل کے مین آف دی میچ شین وارن رہے جب کہ جنوبی افریقہ کے لارنس کلوزنر کو ٹورنامنٹ میں شاندار آل رائونڈ کھیل کا مظاہرہ کرنے پر پلیئر آف دی ٹورنامنٹ قرار دیا گیا۔
ورلڈ کپ 1999 میں بننے والے بیٹنگ، بولنگ، فیلڈنگ ریکارڈز:
ساتویں ورلڈ کپ میں بیٹرز کا بیٹ میدان کے چاروں طرف گھومتا رہا اور ایونٹ میں مجموعی طور پر 16963 رنز بنائے گئے۔ ایونٹ کی پہلی سنچری ٹنڈولکر اور نصف سنچری سری لنکن کالوتھارانا نے بنائی۔ گنگولی نے 183 رنز کی سب سے بڑی انفرادی اننگ کھیلی۔
ساتویں عالمی کپ میں 11 سنچریاں بنیں۔ راہول ڈریوڈ 2 سنچریاں کر کے نمایاں رہے اور یہی 461 رنز کے ساتھ ایونٹ کے سب سے کامیاب بلے باز بھی رہے۔
ایونٹ میں مجموعی طور پر 597 وکٹیں گریں۔ گلین میک گرا نے ویسٹ انڈیز کے خلاف 14 رنز کے عوض 5 وکٹیں حاصل کرکے بہترین انفرادی بولنگ کا ریکارڈ اپنے نام کیا۔ جب کہ شین وارن اور جیف ایلٹ 20، 20 وکٹوں کے ساتھ سب سے کامیاب بولرز قرار پائے۔
معین خان 16 شکار کے ساتھ ٹورنامنٹ کے ٹاپ وکٹ کیپر رہے۔
ورلڈ کپ 1999 میں ہونے والے بڑے اپ سیٹ:
ساتویں ورلڈ کپ کا پہلا اپ سیٹ 19 مئی کو لیسٹر کے مقام پر ہوا جہاں زمبابوے نے بھارت کو سنسی خیز مقابلے کے بعد 3 رنز سے ہرا دیا۔
دوسرا بڑا اپ سیٹ کرنے والی ٹیم بھی زمبابوے ہی تھی جس نے 29 مئی ایونٹ کی سب سے مضبوط ٹیم جنوبی افریقہ کو چیلمفورڈ میں 48 رنز سے ہرا کر دنیائے کرکٹ کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
تاہم دنیائے کرکٹ کے آگے اس سے بھی بڑی حیرانی تھی جب 2 دن بعد 31 مئی کو نارتھمپٹن میں بنگلہ دیش جو اپنا پہلا ورلڈ کپ کھیل رہا تھا اس نے گروپ میں نا قابل شکست رہنے والی ٹیم پاکستان کو 62 رنز سے زیر کر دیا۔
اس مضمون کے لیے عمران عثمانی کی کتاب ’’ورلڈ کپ کہانی‘‘ سے بھی مدد لی گئی ہے۔