اشتہار

ورلڈ کپ 2003، آسٹریلیا نے تیسری بار عالمی چیمپئن بننے کا منفرد اعزاز پا لیا

اشتہار

حیرت انگیز

کرکٹ کا آٹھواں ورلڈ کپ 2003 میں تین ممالک جنوبی افریقہ، زمبابوے اور کینیا میں کھیلا گیا جس میں آسٹریلیا نے تیسری بار عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز پا لیا۔

آئی سی سی نے پہلی بار کرکٹ ورلڈ کپ کی میزبانی افریقن ممالک کے سپرد کی اور آٹھواں ایڈیشن تین ممالک جنوبی افریقہ، زمبابوے اور کینیا میں مشترکہ طور پر کھیلا گیا۔ 9 فروری سے 23 مارچ تک ہونے والے اس میگا ایونٹ میں 15 مقامات پر کھیلا گیا۔

ورلڈ کپ 2003 کی خاص باتیں:

یہ اب تک کھیلے گئے 12 ورلڈ کپ کا سب سے بڑا ایونٹ ہے جس عالمی کپ کی 52 سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ ٹیموں یعنی 14 ممالک نے شرکت کی۔ اسی طرح سب سے زیادہ 52 میچز کا انعقاد ہوا۔ آئی سی سی فل 10 ٹیسٹ ٹیموں کے علاوہ پہلی بار چار نان ٹیسٹ پلیئنگ ٹیموں کینیڈا، کینیا، نمیبیا اور ہالینڈ اکٹھے شرکت کی۔

- Advertisement -

آٹھویں عالمی کپ میں شریک 14 ٹیموں کو 2 گروپوں میں اس طرح تقسیم کیا گیا تھا تھا کہ گروپ اے میں دفاعی چیمپئن آسٹریلیا کے ساتھ پاکستان، انگلینڈ، بھارت، زمبابوے، نیمبیبا اور ہالینڈ کی ٹیموں کو رکھا گیا تھا جب کہ گروپ بی میں جنوبی افریقہ، کینیا، کینیڈا، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیوزی لینڈ اور ویسٹ انڈیز شامل تھیں۔

منتظمین نے سابقہ ورلڈ کپ کی روایت برقرار رکھتے سپر سکس کا مرحلہ جاری رہا، کینیا کی ٹیم اپنے ملک اور زمبابوے میں سیاسی حالات کی خرابی کی وجہ سے ٹیموں کے نہ کھیلنے اور واک اوور ملنے کے سبب سیمی فائنل تک رسائی کر گئی ، کمزور پروگرام اور ٹیمیں بڑھنے کی وجہ سے بہت سے میچ غیر دلچسپ رہے ، ٹورنامنٹ کا دورانیہ 6 ہفتے سے زائد رہا۔ جنوبی افریقہ میں کھیلے جانے والے پہلے عالمی کپ میں بارشوں نے بھی متاثر کیا جس سے پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی ٹیموں کو نقصان پہنچا۔

یہ کرکٹ کی تاریخ کا پہلا ورلڈ کپ تھا جس میں پہلی بار ٹیسٹ نہ کھیلنے والا ملک کینیا زمبابوے کو سپر سکس مرحلے میں ہرا کر صرف ایک فتح اور پہلے مرحلے کے پوائنٹس کی بدولت فائنل فور مرحلے میں جا پہنچا۔

موسم کی مداخلت، زمبابوے کے سیاسی حالات میں بڑی ٹیموں کے واک آؤٹ، غلط پوائنٹ اسکورنگ کی وجہ سے پاکستان، انگلینڈ، جنوبی افریقہ، ویسٹ انڈیز جیسی بڑی ٹیمیں سپر سکس مرحلے سے باہر ہوئیں اور کینیا، زمبابوے جیسی کمزور ٹیموں نے جگہ بنائی جس کی وجہ سے شائقین کرکٹ کی میگا ایونٹ میں دلچسپی کم ہوگئی جب کہ سیمی فائنل میں چار ٹیموں نے جگہ بنائی جن میں دفاعی چیمپئن آسٹریلیا کے ساتھ بھارت، سری لنکا اور کینیا شامل تھیں۔

ورلڈ کپ میں ٹیموں کو 7، 7 کے دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور ہر گروپ کی سر فہرست 3 ٹیموں نے سپر سکس مرحلے میں جگہ پائی تاہم پاکستان نے اپنے ناقص کھیل کے باعث ابتدا ہی بوریا بسترا گول کرا لیا جس نے پاکستان کرکٹ کے بڑے نامور کھلاڑیوں وسیم اکرم، وقار یونس اور سعید انور کے کیریئر پر فل اسٹاپ کا نشان لگا دیا۔

سپر سکس کا وہ قانون کہ کوالیفائی کرنے والی ٹیموں کے خلاف فتوحات پوائنٹس سیمی فائنل تک مدد گار ثابت ہوگا ، آسٹریلیا کو سپرسکس کی بنا ہی سیمی فائنل میں پہنچا گئے۔ کینیا اور سری لنکا کو محض زمبابوے کے خلاف کامیابی کے ساتھ یہ ٹکٹ مل گیا۔ بھارت نے اپنے تینوں سپر سکس میچ جیت کر ٹکٹ کٹوا لی۔ سیمی فائنل میں بھارت کی کینیا نے پھر نہ چلنے دی اور آسٹریلیا نے سری لنکا کا صفایا کر دیا۔ فائنل ایک مرتبہ پھر 1999 کے ورلڈ کپ فائنل کی طرح یکطرفہ رہا آسٹریلیا تیسری بار چیمپئن بنا تاہم فائنل میں مدمقابل پاکستان کے بجائے بھارت تھا۔

ورلڈ کپ اپنے آغاز سے قبل ہی منفی اور سنسنی خیز خبروں کی زینت اس وقت بن گیا جب آسٹریلیا کے مایہ ناز اسپنر شین وارن میگا ایونٹ شروع ہونے سے پہلے ڈوپ ٹیسٹ میں پکڑے گئی جس کی پاداش میں انہیں نہ صرف وطن واپس لوٹنا پڑا بلکہ ایک سال کی پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑا جب کہ اسی ورلڈ کپ کے دوران بھارت اور آئی سی سی کے درمیان تشہیری مہم کے جھگڑے نے بھی سر اٹھایا۔

ورلڈ کپ میں بننے والے کچھ انفرادی اور اجتماعی ریکارڈ:

اس ٹورنامنٹ کا سب سے بڑا ٹوٹل آسٹریلیا کی جانب سے سامنے آیا جو اس نے فائنل میں بھارت کے خلاف 5 وکٹوں کے نقصان پر 359 رنز تشکیل دیا جب کہ کینیڈا کی ٹیم سری لنکا کے خلاف 36 رنز کے کم تر اسکور پر ڈھیر ہوگئی۔ اس بار سب سے بڑی انفرادی اننگ کسی بڑی ٹیم نہیں بلکہ زمبابوے کی جانب سے کھیلی گئی جو وشارٹ کے جانب سے بنائے گئے نا قابل شکست 172 رنز تھے جو نمیبیا کے خلاف بنائے گئے۔

گزشتہ ایونٹ کی طرح اس بار بھی بھارتی بیٹر سچن ٹنڈولکر ٹورنامنٹ کے ٹاپ اسکورر رہے جنہوں نے مجموعی طور پر 673 رنز اسکور کیے اس کے ساتھ ہی وہ ایونٹ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے جب کہ سری لنکا کے چمندا واس 14.39 کی قابل رشک اوسط سے 23 وکٹیں حاصل کرکے ٹاپ بولر رہے۔ بولنگ میں بہترین انفرادی کارکردگی آسٹریلیا کے گلین میک گراتھ کی رہی جنہوں نے 15رنز کے عوض 7 نیمبیبن کھلاڑیوں کو ٹھکانے لگایا۔ اس ورلڈ کپ میں پہلی بار دو ہیٹ ٹرک سامنے آئیں جو سری لنکن چمندا واس اور آسٹریلیا کے بریٹ لی نے بنائیں۔

کچھ ناقابل یقین نتائج والے میچز:

9 فروری کو میزبان جنوبی افریقہ حریف ٹیم ویسٹ انڈیز سے جیتا ہوا میچ ہار گیا۔ 279 رنز کے تعاقب میں پروٹیز کو 4 گیندوں پر 8 رنز درکار تھے کہ کلوزنر سمیت آخری وکٹ چار رنز کے اضافے کے ساتھ گر گئیں یوں مہمان ٹیم 3 رنز سے فتح یاب رہی۔
2 مارچ کو بھی انگلینڈ اور آسٹریلیا میں ڈرامائی موڑ لیا میچ ہوا جس میں انگلینڈ پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 204 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔

ہدف کے تعاقب میں انگلش بولرز نے 135 کے مجموعے پر 8 آسٹریلوی بیٹرز کو شکار کر لیا تھا اور جیت یقینی دکھائی دیتی تھی کہ بیون اور بینل نے آخری اوور کی چوتھی گیند تک لڑتے لڑتے 73 رنز بنا کر دو وکٹ سے اپنی ٹیم کو فتح سے ہمکنار کر ا ہی دیا اور انگلینڈ کو اس کا خمیازہ پہلے ہی راؤنڈ سے اخراج کی صورت برداشت کرنا پڑا۔

بدقسمتی نے پھر جنوبی افریقہ کا پیچھا کیا:

اگلے ہی روز سری لنکا اور جنوبی افریقہ کا ایسا میچ ہوا جس کو دیکھ کر لگا کہ بدقسمتی نے ایک بار پھر جنوبی افریقہ کی ٹیم کا کامیابی سے پیچھا کیا۔ سری لنکا کی جانب سے دیے گئے 269 رنز کے ہدف کے تعاقب میں جنوبی افریقہ کامیابی کے ساتھ منزل کی جانب رواں دواں تھا، 45 ویں اوور کا کھیل جاری تھا، رنز کے ساتھ بارش بھی تیز ہو رہی تھی۔

ایسے میں پروٹیز کھلاڑی مارک بوچر نے چھکا مارکر جشن منانا شروع کر دیا کیونکہ میزبان ٹیم کے پاس اس وقت موجود ڈک ورتھ لوئس سسٹم کے تحت جو پیپر ورک تھا اس کے مطابق جنوبی افریقہ نے اس مقام پر 229 رنز بنا کر میچ جیت چکا تھا اسی لیے انہوں نے آخری بال کھیل کر موقع ہونے کے باوجود بھی سنگل رن نہیں بنایا۔

اس موقع پر بارش کے باعث میچ رکا تو پھر دوبارہ شروع نہ ہوسکا۔ منتظمین نے فائنل ورک کر کے جب اصل صورتحال سے آگاہ کیا تو یہ جنوبی افریقہ کے لیے بڑا دھچکا تھا کہ اس مقام پر دونوں ٹیموں کا اسکور برابر بنتا ہے چنانچہ ڈک ورک فارمولا کے مطابق جیتنے کے لیے جنوبی افریقہ کا اسکور کم از کم 230 ہونا چاہیے تھا۔

یوں قبل از وقت جشن منانا اور موقع کے باوجود رن نہ لینا مارک بوچر، پوری ٹیم اور ہوم کراؤڈ کو نا قابل یقین صدمہ دے گیا کیونکہ اس کے ساتھ ہی جنوبی افریقہ بھی ورلڈ کپ سے باہر ہو چکا تھا۔

پاکستان کی اب تک ہونے والے ورلڈ کپ کی ناقص ترین کارکردگی:

پاکستان نے 2003 تک ہونے والے ورلڈ کپ کی تاریخ میں سب سے ناقص پرفارمنس کا مظاہرہ کیا اور پھر اپنے اس منفی ریکارڈ کو اگلے ہی ورلڈ کپ میں مزید جلا بخشی۔

ورلڈ کپ 1999 کی فائنلسٹ ٹیم جب نئے کپتان وقار یونس کی قیادت میں 2003 کے عالمی ایونٹ میں داخل ہوئی تو کسی کو اس قدر ناقص پرفارمنس کی توقع نہ تھی جو گرین شرٹس نے دکھائی۔ وسیم اکرم، انضمام الحق، سعید انور، محمد یوسف، شاہد آفریدی، یونس خان، عبدالرزاق، راشد لطیف اور شعیب اختر جیسے اپنے وقت کے بڑے کرکٹ ناموں سے جڑی ٹیم کے لیے ورلڈ کپ پہلے ہی راؤنڈ میں اختتام پذیر ہوگیا۔

پاکستان کی ناقص کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گرین شرٹس گروپ میچ میں کسی بھی فل آئی سی سی ٹیم سے میچ نہ جیت سکی۔ آسٹریلیا کے علاوہ روایتی حریف بھارت اور انگلینڈ سے میچ ہارے۔ زمبابوے سے میچ بارش باعث نا مکمل رہا، صرف فتوحات ہالینڈ اور نمیبیا کے خلاف ملیں اور یہ فتوحات پاکستان کو قطعی طور پر اگلے سپر سکس مرحلے میں لے جانے کے قابل نہیں تھیں۔

1992 کی چیمپئن پاکستان ٹیم کے ہیرو انضمام الحق اس پورے ٹورنامنٹ میں بجھے بجھے رہے اور 6 میچز میں ان کا بیٹ صرف 19 رنز ہی بنا سکا۔ وسیم اکرم نے اس ٹورنامنٹ میں اپنی 500 ون ڈے وکٹیں مکمل کرنے کا اعزاز تو پایا کرکٹ کیریئر ختم ہوگیا۔

پہلا سیمی فائنل:

پہلا سیمی فائنل دفاعی چیمپئن آسٹریلیا اور 1996 کی فاتح ورلڈ کپ سری لنکا کے درمیان 18 مارچ کو پورٹھ الزبتھ میں ہوا جو کینگروز نے ڈک ورتھ لوئس سسٹم کے تحت 48 رنز سے جیت کر اپنے تیسرے عالمی کپ کی جانب سے اگلا قدم بڑھایا۔

دوسرا سیمی فائنل:

دوسرا سیمی فائنل بھارت اور کینیا کے درمیان 20 مارچ کو ڈربن میں کھیلا گیا جس میں کینیا بھارت کے لیے تر نوالہ ثابت ہوا۔

بھارت نے پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ 50 اوورز میں 4 وکٹوں کے نقصان پر 270 رنز بنائے جواب میں کینا کی بساط 179 رنز پر لپیٹ کر دوسری بار ورلڈ کپ کا فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔ گنگولی 111 رنز بنا کر مین آف دی میچ رہے۔

فائنل مقابلہ:

آٹھویں کرکٹ ورلڈ کپ کا اختتامی اور سب سے بڑا مقابلہ فائنل میچ 23 مارچ کو جوہانسبرگ میں کھیلا گیا۔ کینگروز مسلسل یہ تیسرا فائنل ایشیائی ٹیم کے خلاف کھیل رہے تھے۔ 1996 میں سری لنکا اور 1999 میں پاکستان مدمقابل آ چکے تھے۔

آسٹریلیا تیسری بار ورلڈ کپ جیتنے کا عزم لے کر میدان میں اترا اور پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے صرف دو وکٹوں کے نقصان پر 360 رنز کا پہاڑ جیسا ہدف بھارت کے سامنے کھڑا کر دیا گلکرسٹ، ہائیڈن، پونٹنگ، مارٹن سب سے بھارتی بولرز کی خوب درگت بنائی۔

بڑے ہدف کے تعاقب میں بھارتی سورماؤں کے ہاتھ پیر یوں پھولے کہ پوری ٹیم 40 ویں اوور میں 234 رنز پر ڈھیر ہو گئی اور سوائے سہواگ کے 82 رنز کے علاوہ کوئی اور بیٹر فتح کے لیے جدوجہد کرتا نظر نہ آیا۔

آسٹریلیا نے 125 رنز کے بڑے مارجن سے فائنل جیت کر تیسری بار عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ کپتان رکی پونٹنگ نے ٹرافی کے ساتھ 141 رنز کی دلکش اننگ کھیل کر مین آف دی میچ حاصل کیا جب کہ سچن ٹنڈولکر مین آف دی سیریز قرار پائے۔

ساتواں ورلڈ کپ 1999، آسٹریلیا کا کرکٹ پر طویل حکمرانی کا دور شروع ہوا

اس مضمون کے لیے عمران عثمانی کی کتاب ’’ورلڈ کپ کہانی‘‘ سے بھی مدد لی گئی ہے۔

Comments

اہم ترین

ریحان خان
ریحان خان
ریحان خان کو کوچہٌ صحافت میں 25 سال ہوچکے ہیں اور ا ن دنوں اے آر وائی نیوز سے وابستہ ہیں۔ملکی سیاست، معاشرتی مسائل اور اسپورٹس پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ قارئین اپنی رائے اور تجاویز کے لیے ای میل [email protected] پر بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔

مزید خبریں