نیویارک: ہیومن رائٹس واچ کے مطابق قوانین پر کمزور عمل درآمد کے باعث لبنان میں شامی خواتین کی اسمگلنگ میں اضافہ ہورہا ہے۔
انسانی اسمگلنگ کے خلاف تحفظ کے عالمی دن کے موقع پر ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق شام میں جاری جنگ کے باعث شامی خواتین کو بے شمار خطرات کا سامنا ہے جن میں سرفہرست ان کی اسمگلنگ اور جنسی مقاصد کے لیے استعمال ہے۔
شام کے پڑوسی ملک لبنان میں بھی شامی خواتین کی بڑی تعداد کو اسمگل کر کے لایا جاچکا ہے۔ رواں برس مارچ کے مہینے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے لبنان کے بدنام علاقوں سے 75 شامی خواتین کو بازیاب کیا جو اسمگل کر کے لائی گئی تھیں اور زبردستی جنسی مقاصد کے لیے استعمال کی جارہی تھیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق لبنان میں بڑے بڑے جرائم پیشہ گروہ اور افراد اس جرم میں ملوث ہیں۔ 2015 اور 2016 میں لبنان میں صرف 30 افراد کو گرفتار کیا گیا جو انسانی اسمگلنگ میں ملوث تھے۔
داعش نے 19 یزیدی خواتین کو زندہ جلا دیا *
حکام کے مطابق شام میں جنگ شروع ہونے سے قبل بھی لبنان میں شامی خواتین کی اسمگلنگ جاری تھی لیکن جنگ کے بعد اس میں تیزی سے اضافہ ہوگیا ہے۔ جرائم پیشہ افراد اس مقصد کے لیے بچوں کو بھی اغوا کر لیتے ہیں۔
لبنان کا ایک علاقہ شیز موریس جو اس جرم کی پناہ گاہ ہے کو کئی بار بند بھی کیا گیا، لیکن حکام کی ملی بھگت سے دوبارہ کھول لیا گیا۔
واضح رہے کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک عراق اور شام کے مختلف حصوں پر داعش کے قبضے کے بعد خواتین کا بری طرح استحصال جاری ہے۔ داعش ہزاروں خواتین کو اغوا کر کے انہیں اپنی نسل میں اضافے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
ان خواتین کی حیثیت جنسی غلاموں کی ہے جو ان جنگجوؤں کے ہاتھوں کئی کئی بار اجتماعی زیادتی اور بدترین جسمانی تشدد کا نشانہ بن چکی ہیں۔
انسانی حقوق کی وکیل امل کلونی یزیدی خواتین کا کیس لڑیں گی *
اقوام متحدہ کے مطابق داعش نے اب تک 7 ہزار خواتین کو اغوا کر کے انہیں غلام بنایا ہے جن میں سے زیادہ تر عراق کے یزیدی قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں۔