تازہ ترین

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

عالمی یومِ شاعری: غزل بہانہ کروں اور گنگناؤں اسے

ادیب اور شاعر اپنے خیالات، جذبات کا اظہار کرنے اور حالات و واقعات کو بیان کرنے کے لیے نثر اور نظم جیسی دو بنیادی اصنافِ ادب کا سہارا لیتے ہیں۔ تخلیقی ادب کی بات کی جائے تو نثر کے میدان میں ناول، افسانہ، ڈراما دنیا بھر میں مقبول ہیں جب کہ نظم ہر ملک کے شعری ادب کی خوب صورت اور نہایت مقبول صنف رہی ہے۔

آج دنیا یومِ شاعری منارہی ہے۔ 1999 ء سے یہ دن ہر سال21 مارچ کو منایا جاتا ہے جس کا مقصد فروغِ ادب، بالخصوص سخن فہمی ہے۔ یہ دن باذوق قارئین کو تخلیقی ادب سے جوڑتا ہے، کہنہ مشق اور نوآموز شعرا کو تحریک دیتا ہے اور ہر ملک میں ادبی روایات اور قدروں کو مستحکم و توانا کرنے کا سبب بنتا ہے۔

اردو شاعری کی بات کریں تو یہاں نظم اور غزل تخلیقی اظہار کے دو مقبول ترین سانچے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب شاعری غزل کی ہیئتی بندش اور روایتی موضوعات تک محدود تھی، کلاسیکی دور گزرا تو اس صنفِ سخن میں اندروں بینی اور وارداتِ قلبی کے بیان سے بڑھ کر بات کی جانے لگی اور آگے چل کر اردو شعرا کی طویل فہرست میں ہم نے میر تقی میر، مرزا غالب جیسے شاعروں کو پڑھا جب کہ بیسویں صدی میں جب ہندوستان میں شعرا نے نظم کو گلے لگایا تو اسے مختلف ہیئتی تجربات اور موضوعات سے سجنے سنورنے کا موقع ملا جسے جدید دورِ شاعری اور پھر ترقّی پسند تحریک تک خوب مقبولیت حاصل ہوئی۔ اردو شاعری میں مختکلف ادوار میں ہیئت کے تجربات ہوئے اور موضوعات کے تنوع نے اسے وسعت اور کمال عطا کیا۔

اردو شاعری کے معتبر اور مستند ناموں کے ساتھ پاکستان میں نوجوان تخلیق کار نظم اور غزل جیسی مقبول اصناف میں طبع آزمائی کررہے ہیں اور ادبی تنظیموں کے زیراہتمام مشاعروں کا سلسلہ جاری ہے جو کہ ہماری ادبی روایت کا خوب صورت حصّہ اور سخن فہم و باذوق قارئین کی تسکین کا باعث ہے۔ یہ مشاعرے اور ادبی محافل خاص طور پر نئے شعرا کی حوصلہ افزائی، شہرت اور مقبولیت کا سبب بنتی ہیں۔

یومِ شاعری پر مرزا غالب کی یہ غزل ملاحظہ کیجیے

بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے
گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے

مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے

پھر دیکھیے انداز گل افشانیٔ گفتار
رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے

ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے

عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام
مجنوں کو برا کہتی ہے لیلیٰ مرے آگے

خوش ہوتے ہیں پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے
آئی شب ہجراں کی تمنا مرے آگے

گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے

ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز ہے میرا
غالبؔ کو برا کیوں کہو اچھا مرے آگے

Comments

- Advertisement -