ملک کے مختلف شہروں میں گاڑی کے پرانے ٹائروں کو چِھیل کر ان پر رنگ و روغن کرکے نیا بتا کر فروخت کیا جارہا ہے اور یہ دھندہ متعلقہ سرکاری افسران کی ناک کی نیچے کئی دہائیوں سے جاری ہے۔
گاڑیوں کے استعمال شدہ پرانے ٹائروں کو نیا کرکے بیچے جانے والے ٹائر ’کابلی ٹائر‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام سرعام کی ٹیم نے اس بار پاکستان کی ٹائر انڈسٹری کا میگا اسکینڈل اور ٹائر مافیا کو بے نقاب کرنے کا فیصلہ کیا۔
لاہور میں ریلوے اسٹیشن اور لاری اڈے کے درمیان ری فرنشڈ ٹائروں کو فروخت کرنے کی بہت سی مارکیٹیں ہیں، ان مارکیٹوں کے بیسمنٹ اور اندرونی دکانوں میں ان ناکارہ اور گھسے ہوئے ٹائروں کو دھوکہ بازی کرکے دوبارہ نیا بنایا جاتا ہے۔
ٹیم سرعام نے دو دکانداروں سے کہا کہ ہمیں ایک شخص سے بدلہ لینا ہے لہٰذا انہیں ایسے ٹائر درکار ہیں جنہیں جس گاڑی میں لگایا جائے تو وہ سو کلومیٹر کی رفتار کے بعد پھٹ جائیں، جس پر ان دکانداروں نے یقین دہانی کروائی اور سودے کیلیے حامی بھرلی۔
پروگرام کے میزبان اقرار الحسن کی قیادت میں ٹیم سرعام نے عین اس وقت چھاپہ مارا جب وہ ٹیم کی لائی گئی گاڑی میں پرانا ٹائر فٹ کررہے تھے۔
غلام حیدر نامی دکاندار پہلے تو سٹپٹا گیا لیکن بعد ازاں بڑی ڈھٹائی سے اپنے کام کا دفاع کرنے لگا، اس کا کہنا تھا کہ یہ کام سب جگہ کئی سال سے جاری ہے۔ اسی طرح دوسرے دکاندار نے بھی تھوڑی سی پس و پیش کے بعد ناقص ٹائر بیچنے کا اعتراف کرلیا۔
اصل ٹائر کی مدت کتنی ہوتی ہے؟
ایک عام شہری ٹائر خریدتے ہوئے پرانے اور نئے ٹائر میں فرق کو کیسے پہچان سکتا ہے؟ یہ جاننے کیلئے ٹیم سرعام نے ماہر آٹو انڈسٹری اور پاک وہیل ڈاٹ کام کے روح رواں سنیل سرفراز منچ سے رابطہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں کہ جس سے یہ پتہ کیا جاسکے کہ سڑک پر چلنے والی گاڑی ڈومیسٹک گاڑی کا فٹنس سرٹیفکیٹ ہے یا نہیں صرف کمرشل گاڑیوں کی ہی چیکنگ کی جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ٹائر کی ربڑ کی مدت پانچ سال ہوتی ہے جس کے بعد ٹائر کی میعاد ختم ہوجاتی ہے، ری فرنشڈ ٹائر کسی بھی صورت قابل استعمال نہیں ہے اور اس جاننے کے باوجود کا استعمال خود کشی کے مترداف ہے۔