پاکستانی ادب کی ہمہ جہت شخصیات کا تذکرہ کیا جائے تو احمد بشیر بھی ان میں شامل ہوں گے۔ ناول اور افسانہ نگاری کے ساتھ خاص طور پر بطور خاکہ نگار انھوں نے اردو ادب کو یادگار تحریریں دی ہیں۔ نظریاتی طور پر وہ ترقّی پسند ادب سے وابستہ اور ایک صحافی کے طور پر مشہور تھے۔
معروف ادیب ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو لکھتے ہیں کہ ’’انہوں نے اپنی تحریروں میں ہمیشہ خستہ حال اور پسے ہوئے طبقے کے مسائل اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی تصنیف و تالیف میں بسر کی۔ وہ ایک ایسے ادیب اور دانش وَر تھے، جنہوں نے آمریت کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے امید اور روشن امکانات کے چراغ روشن رکھے۔‘‘
1923ء کو گوجرانوالہ میں پیدا ہونے والے احمد بشیر کی ذاتی زندگی بھی انقلاب آفریں تھی۔ ان کا نام شیخ بشیر حسین رکھا، لیکن شاعری کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو خود کو احمد بشیر کے نام سے متعارف کروانا پسند کیا اور اسی نام سے جانے گئے۔ گورنمنٹ اسلامیہ ہائر سیکنڈری اسکول سے اوّلین تعلیمی مدارج طے کیے۔ اُن کے والد کا تعلق شعبۂ تعلیم سے تھا اور بطور ہیڈ ماسٹر سری نگر تبادلہ ہوا تو ان کا کنبہ کشمیر چلا گیا اور وہیں احمد بشیر نے بی اے کا امتحان جمّوں یونیورسٹی، سری نگر سے پاس کیا۔ زمانۂ طالبِ علمی میں انھیں مطالعہ کا شوق کتب خانوں میں لیے جانے لگا اور خاص طور پر کالج کی لائبریری سے احمد بشیر نے جو کتابیں پڑھیں، ان میں ترقّی پسند مصنّفین کی تحریروں نے احمد بشیر کو بہت متاثر کیا۔ اسی زمانہ میں احمد بشیر نے اپنی فکر و نظر کو نکھارنے کے ساتھ عملی زندگی میں غیر روایتی راستہ اپنانا شروع کردیا۔ بعد میں کشمیر چھوڑنا پڑا اور ملازمت کے لیے دہلی چلے گئے، جہاں فوج کے ریکروٹمنٹ شعبہ سے منسلک ہوئے۔ بعد ازاں ان کا تبادلہ راولپنڈی کر دیا گیا اور وہاں 1944ء میں ان کی ملاقات ممتاز مفتی سے ہوئی۔ ان میں دوستی کا یہ تعلق تا حیات قائم رہا۔ پھر دونوں ہی لاہور آ گئے۔ یہاں ریڈیو اسٹیشن آنا جانا لگا رہتا تھا اور احمد بشیر کو یہاں کئی ذی علم اور اہلِ قلم شخصیات سے ملنے کا موقع ملا۔ ان کے درمیان رہتے ہوئے احمد بشیر کی تخلیقی صلاحیتیں خوب پروان چڑھیں۔ وہ ممتاز مفتی کے ساتھ فلم کے حوالے سے ہندوستان میں تھے کہ ہندو، مسلم فسادات پھوٹ پڑے اور پھر تقسیم عمل میں آئی۔ یہ دونوں لاہور کے ہو رہے۔
احمد بشیر کا صحافت میں پہلا پڑاؤ ’’اِمروز‘‘ تھا۔ یہاں اُن کی ملاقات مولانا چراغ حسن حسرت سے ہوئی اور انہیں احمد بشیر کی بے باکی، صاف گوئی اور ہم درد طبیعت بہت پسند آئی۔ احمد بشیر نے بھی انھیں استاد کا درجہ دیا۔ چراغ حسن حسرت جب کراچی آئے، تو احمد بشیر کو بھی ساتھ لیتے آئے، جہاں انھوں نے ریڈیو پر اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے کام کیا۔ مگر پھر حالات نے پلٹا کھایا اور مشکل وقت دیکھنے کے بعد احمد بشیر نے پبلک سروس کمیشن کا انٹرویو دے کر انفارمیشن آفیسر کی مستقل ملازمت حاصل کرلی۔ بعد ازاں ان کو ایک قانون کے تحت ایک محکمے میں بھیج دیا گیا جس کے توسّط سے احمد بشیر کو ’’امریکن ایڈ پروگرام‘‘ کے تحت امریکا میں فلم میکنگ کی تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا۔ پاکستان لوٹے تو اپنی فلم ’’نیلا پربت‘‘ بنائی لیکن وہ ناکام ثابت ہوئی۔ 1965ء میں احمد بشیر کراچی سے لاہور چلے گئے، اور بعد ازاں ’’مساوات‘‘ کے ایڈیٹر انچارج کے طور پر اس پرچے سے وابستہ ہو گئے۔ انھوں نے ادبی تخلیقات میں ’’جو مِلے تھے راستے میں‘‘ (خاکے)، ’’خونِ جگر ہونے تک‘‘ (مضامین کا مجموعہ)، ’’ڈانسنگ وِد وُلوز‘‘(انگریزی کالمز کا مجموعہ)، ’’دِل بھٹکے گا ‘‘(ناول)، ’’خطوں میں خوش بُو‘‘ (مکاتیب)، ’’خون کی لکیر‘‘ اور ’’دل بھٹکے گا‘‘ (ناول) یادگار چھوڑے۔ ان کی دو بیٹیاں مصنّفہ جب کہ بشریٰ انصاری پاکستان کی مقبول ترین فن کار ہیں۔
25 دسمبر 2004ء کو احمد بشیر لاہور میں انتقال کر گئے۔ وہ کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔