میاں احسان الٰہی پانچ سال سے صاحبِ فراش تھے۔ فالج کے حملے کے بعد وہ امراضِ قلب کے اسپتال میں دس بارہ دن ”کوما“ میں رہے۔
جب ہوش آیا تو انھیں معلوم ہوا کہ ان کا آدھا جسم مفلوج ہو چکا ہے۔ بینائی جاتی رہی۔ قوت گویائی بھی بری طرح متاثر ہوئی۔ حافظہ آنکھ مچولی کھیلنے لگا۔ صرف تکلیف دہ باتیں یاد رہ گئیں۔ اگر اب انھیں کوئی پہلی بار دیکھتا تو یہ باور نہیں کر سکتا تھا کہ یہ وہی سوا چھ فٹ، 210 پونڈ اور پہلوانی ڈیل ڈول والا شخص ہے، جو 72 سال کی عمر میں صبح چار بجے ڈیڑھ گھنٹے ڈنڈ بیٹھک لگاتا، پھر ایک گھنٹے ٹینس کھیلتا اور دن میں چار پانچ میل پیدل چلتا تھا۔ 1960ء میں دل کے پہلے شدید دورے کے بعد انھوں نے بد پرہیزی، بیٹھکوں اور بزم آرائیوں میں اضافہ کر دیا تھا۔ لندن گئے تو ابن حسن برنی کی طرح انھیں بھی کہیں کوئی زینہ نظر آ جاتا تو اس پر چڑھتے ضرور تھے۔ کہتے تھے ”اس سے دل قوی اور بڑھاپا پسپا ہوتا ہے۔ ساٹھ، پینسٹھ برس پہلے چنیوٹ کے نواح میں کوئی درخت ایسا نہیں تھا، جس پر میں نہ چڑھا ہوں۔“
ڈاکٹروں نے غذا میں سخت پرہیز کی تاکید کی۔ انھوں نے چنیوٹ سے اصلی گھی اور آم کا اچار منگوانا تو چھوڑ دیا، لیکن چنیوٹی کنا، سندھی بریانی، برنس روڈ کے ترترائے تافتان، کوئٹہ کے سجّی کباب، بادام کے حیدر آبادی لوازمات، ملتان کے انور رٹول، مختصر یہ کہ دل کے مریض کے لیے خود کشی کے نسخے کے جملہ اجزا نہیں چھوڑے۔ خود ہی نہیں اپنے معالجوں کو بھی گھر بلا کر بڑے شوق اور اصرار سے کھلاتے۔ کہتے تھے، لذیذ غذا سے مرض کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ اور طاقت پیدا ہوتی ہے! وہ بدستور اپنے خلافِ وضع طبی معمولات پر قائم رہے۔ روزے بھی نہیں چھوڑے کہ بچپن سے رکھتے چلے آئے تھے۔ اس طرح پنج وقتہ نماز اب بھی باقاعدگی سے قضا کرتے تھے۔ تاویل یہ پیش کرتے کہ اب شروع کروں تو لوگ کہیں گے، میاں صاحب ایک ہی ہارٹ اٹیک میں اٹھک بیٹھک کرنے لگے!
ذیابیطس بھی ہو گئی۔ لیکن سونے سے پہلے ایک پاؤ فل کریم والی آئس کریم ضرور کھاتے۔ جتنے ذہین تھے، اس سے زیادہ خود رائے۔ ہر مسئلے پر، خواہ طبی ہی کیوں نہ ہو، وہ الگ اپنی رائے رکھتے تھے۔ کہتے تھے آئس کریم قلب کو ٹھنڈک پہنچاتی اور بلڈ پریشر کو قابو میں رکھتی ہے، بشرطے کہ مقدار قلیل نہ ہو۔ سرگودھا یا ساہیوال اپنے سمدھیانے جاتا ہوں، تو تکلف میں رات آئس کریم کا ناغہ ہو جاتا ہے۔ رات بھر کروٹیں بدلتا رہتا ہوں۔ جس رات آئس کریم نہ کھاؤں اس رات مچھر بہت کاٹتے ہیں۔
(ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ”آب گم“ سے ماخوذ)