لاہور: اردو ادب کے نامورافسانہ نگار اور حلقہ اربابِ ذوق کے فعال رکن ذکا الرحمن آج لاہورمیں انتقال کرگئے ان کی نمازِ جنازہ بعدِ نمازِعصر ادا کی جائے گی۔
ذکا ء الرحمن نے فنی اور ذاتی ہر دو سطح پر ایک کامیاب زندگی گزاری اور یہی بات اہم ہے ۔ وہ سَچی فنکار ، سُچے دانشور اور محبت کرنے والے نابغۂ روزگار انسان تھے جن کے ادبی معیارات ان کے اخلاق کی طرح بے حد بلند تھے۔
انہوں نے ایم اے او کالج سے تعلیم حاصل کی اورادبی تنظیم حلقہ اربابِ ذوق لاہورکے بے انتہا فعال رکن تھے۔
ان کا پہلا افسانوی مجموعہ درد آئے گا دبے پاؤں، دوسرا ۔ زمین اور میں۔ تیسرا۔ خوابِ سنگین او چوتھا ذات کے اندر ہے جس میں نئے پرانے افسانے اکٹھے کئے گئے ہیں۔ ان کے پہلے تین افسانوی مجموعوں کی کلیات بھی شائع ہو چکی ہے۔
ان کے دو ناولٹ شائع ہوئے تھے اور ایک ناول پر وہ کئی دہائیوں سے کام کر رہے تھے جس کی تدوین وہ آج کل کر رہے تھے لیکن زندگی نے مہلت نہ دی کہ وہ سہ اَبعادی گھمن گھیری میں پھنسے انسان اور اس کی زندگی کا احاطہ کرتے ناول کو زیور طباعت سے آراستہ کر پاتے گو ان کے ناول کے دو تین ابواب مختلف رسائل میں شائع ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کراچی قیام کے دوران ڈرامے بھی لکھے تھے جو پی ٹی وی پر نشر ہوئے، کچھ ڈرامے اسد محمد خان کے ساتھ بھی لکھے تھے لیکن ضیاء الحق کے دور میں ان کے افسانے ’’شِرک ‘‘نے ان پر سرکاری نشریاتی اداروں کے دروازے بند کر دیئے۔
اکادمی ادبیات کے لاہور دفتر میں چند ہفتے قبل ذکاء الرحمن کے اعزاز میں تقریب کے دوران میں مستنصرحسین تارڑ نے کہا تھا کہ ’’آؤ! ذکاء الرحمن کو دریافت کریں، اور یہ ہماری ذمہ داری ہے‘‘۔
ذکا الرحمن کی نمازِجنازہ بعد نمازِعصر ڈی ایچ اے لاہورفیز 6 کی مسجد میں ادا کی جائے گی۔