کہا جاتا ہے کہ یگانہ چنگیزی یوں تو کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے، لیکن مرزا غالب کے بڑے مخالف تھے۔ غالب کی مخالفت نے انھیں بہت شہرت دی اور وہ غالب شکن مشہور ہوئے۔ یگانہ کا مزاج انھیں ہنگامہ خیزی پر مائل رکھتا تھا۔ وہ اپنے دور میں لکھنؤ کے شعرا سے معرکہ آرائیوں کے سبب بھی متنازع رہے۔
غالب کی بات کی جائے تو یگانہ صرف زبانی کلامی مخالفت یا اکا دکا تنقیدی مضامین تک محدود نہیں رہے بلکہ ‘غالب شکن‘ کے نام سے ایک تصنیف بھی اردو دنیا کو دے گئے۔ اس دور میں غالب کی شخصیت کو نشانہ بنانے اور ان کی شاعری پر تنقید کرنے کا اثر مرزا غالب نے لیا یا نہیں مگر یگانہ کو ضرور شہرت ملی۔ اس کے باوجود انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یگانہ ایک قادرُ الکلام شاعر بھی تھے اور ان کا امتیاز اپنے زمانے کے رائج ادبی تصوّرات اور شعری روایات کو مسترد کرتے ہوئے جدید غزل کے لیے راستہ ہموار کرنا ہے۔
بیسوی صدی کے تمام تر تہذیبی، سماجی اور فرد کے داخلی مسائل کو غزل میں پیش کرنے والے یگانہ چنگیزی 4 فروری 1956ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔
یگانہ کا اصل نام مرزا واجد حسین تھا۔ 17 اکتوبر 1884ء کو متحدہ ہندوستان کے صوبہ بہار کے مشہور شہر عظیم آباد (پٹنہ) میں یگانہ نے آنکھ کھولی۔ شعر گوئی کا آغاز کیا تو ابتدائی دور میں یاس تخلّص کیا، بعد میں یگانہ کے نام سے پہچانے گئے۔ یگانہ نے ہندوستان کے متعدد شہروں میں اقامت اختیار کی اور 1904ء میں لکھنؤ چلے گئے۔ لکھنؤ ہی میں یاس یگانہ کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔
ابتدائی تعلیم مدرسہ واقع مغل پورہ میں حاصل کی۔ بعد میں وہ محمڈن اینگلو عریبک اسکول عظیم آباد میں داخل ہوئے اور قابلیت کی بناء پر وظیفہ بھی پاتے رہے۔ میٹرک انھوں نے کلکتہ یونیورسٹی سے پاس کیا۔ میٹرک کے بعد یگانہ کچھ عرصہ نواب کا ظم علی خان رئیس سنگی دالان عظیم آباد کے پوتے نواب ابوالحسن کو پڑھاتے رہے اور پھر میرزا محمد مقیم بہادر(مٹیا برج) کلکتہ کے بچوں کے اتالیق مقرر ہوئے لیکن وہاں کی آب وہوا راس نہ آئی لہٰذا خرابی صحت کی وجہ سے واپس عظیم آباد آگئے۔ عظیم آباد میں بھی صحت مسلسل خراب رہی تو لکھنؤ چلے گئے۔ یہاں طبیعت بہتر ہوئی اور لکھنؤ میں مستقل طور پر رہنے لگے اور شادی بھی یہاں کی۔ ان کی زوجہ کا نام کنیز حسین تھا۔ یگانہ کے ہاں سات اولادیں ہوئیں۔
جب یگانہ لکھنؤ آئے تھے تو وہاں ادبی محافل اور مشاعروں کا بڑا سلسلہ تھا، لیکن یگانہ کے مزاج نے انھیں سبھی سے دور رہنے پر مجبور رکھا۔ وہ مرزا غالب جیسے مشہور شاعر کے بڑے ناقد اور نکتہ چیں رہے۔ لیکن لکھنؤ والوں نے بھی یگانہ کی شعر گوئی اور ان کے فن کی اہمیت کو اس کے باوصف کم نہیں جانا۔ غزل جیسی مقبول صنفِ سخن میں یگانہ کے تجربات اور اسے آراستہ کرنے کی کوششوں کو ہمیشہ سراہا گیا۔ یگانہ نے اپنی زندگی کا آخری حصّہ لکھنؤ میں بڑی کس مپرسی کے عالم میں بسر کیا۔ ان کے شعری مجموعے نشترِ یاس، آیاتِ وجدانی، ترانہ اور گنجینہ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔
انھیں لکھنؤ میں کربلائے منشی تفضل حسین (وکٹوریہ گنج) میں آسودۂ خاک ہیں۔
ان کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے۔
مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا
ہمیں سر مار کر تیشے سے مر جانا نہیں آتا
ہر شام ہوئی صبح کو اک خوابِ فراموش
دنیا یہی دنیا ہے تو کیا یاد رہے گی