علامہ اقبال نے ان شاعروں، صورت گروں اور افسانہ نویسوں پر بڑا ترس کھایا ہے جن کے اعصاب پہ عورت سوار ہے۔ مگر ہمارے حبیب لبیب اور ممدوح بشارت فاروقی ان بدنصیبوں میں سے تھے جن کی بے داغ جوانی اس شاعر کے کلام کی طرح تھی جس کے بارے میں کسی نے کہا تھا کہ موصوف کا کلام غلطیوں اور لطف دونوں سے پاک ہے!
بشارت کی ٹریجڈی شاعروں، آرٹسٹوں اور افسانہ نویسوں سے کہیں زیادہ گھور گھمبیر تھی۔ اس لیے کہ دکھیا کے اعصاب پر ہمیشہ کوئی نہ کوئی سوار رہا، سوائے عورت کے۔ اس دور میں جسے ناحق جوانی دیوانی سے تعبیر کیا جاتا ہے، ان کے اعصاب پر بالترتیب ملا، ناصح، بزرگ، ماسٹر فاخر حسین، ممتحن، مولوی مظفر، داغ دہلوی، سیگل اور خسرِ بزرگوار سوار رہے۔ خدا خدا کر کے وہ اسی ترتیب سے ان پر سے اترے تو گھوڑا سوار ہوگیا۔ وہ سبز قدم ان کے خواب، ذہنی سکون اور گھریلو بجٹ پر جھاڑو پھیر گیا۔ روز روز کے چالان، جرمانے اور رشوت سے وہ اتنے عاجز آچکے تھے کہ اکثر کہتے کہ اگر مجھے چوائس دی جائے کہ تم گھوڑا بننا پسند کرو گے یا اس کا مالک یا کوچوان تو میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے SPCA کا انسپکٹر بننا پسند کروں گا جو ان تینوں کا چالان کرتا ہے۔ سنگین غلطی کرنے کے بعد پس بینی (hingsight) کا مظاہرہ کرنے والوں کی طرح وہ اس زمانے میں چوائس کی بہت بات کرتے تھے۔ مگر چوائس ہے کہاں؟ مہاتما بدھ نے تو دو ٹوک بات کہہ دی کہ اگر چوائس دی جاتی تو وہ پیدا ہونے سے ہی انکار کر دیتے۔ لیکن ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ گھوڑے کو اگر چوائس دی جاتی تو وہ اگلے جنم میں بھی گھوڑا ہی بننا پسند کرے گا۔ مہاتما بدھ بننا ہرگز پسند نہیں کرے گا کیوں کہ وہ گھوڑیوں کے ساتھ ایسا سلوک روا نہیں رکھ سکتا جیسا گوتم بدھ نے یشودھرا کے ساتھ کیا۔ یعنی انہیں غافل سوتا چھوڑ کر بیابان کو نکل جائے یا کسی جاکی کے ساتھ بھاگ جائے۔ گھوڑا کبھی اپنے گھوڑے پن سے شرمندہ نہیں ہوتا۔ نہ کبھی اس غریب کو فلکِ کج رفتار سے شکوہ ہوگا۔ نہ اپنے سوارِ گردوں رکاب سے کوئی شکایت۔ نہ تن بہ تدبیر، بسیار جو ماداؤں کے ہرجائی پن کا کوئی گلہ کرے۔ یہ تو آدمی ہی ہے جو ہر دم اپنے آدمی پن سے نادم و نالاں رہتا ہے اور اس فکر میں غلطاں ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا۔
گھوڑا تانگہ رکھبت اور اسے ٹھکانے لگانے کے بعد بشارت میں بہ ظاہر دو متضاد تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ پہلی تو یہ کہ گھوڑے اور اس کے دور و نزدیک کے تمام متعلقات سے ہمیشہ کے لیے نفرت ہوگئی۔ تنہا ایک لنگڑے گھوڑے نے انہیں جتنا نقصان پہنچایا، اتنا تمام ہاتھیوں نے مل کر پورس کو نہیں پہنچایا ہوگا۔ دوسری تبدیلی یہ آئی کہ اب وہ سواری کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ آدمی کو ایک دفعہ سواری کی عادت پڑجائے تو پھر اپنی ٹانگوں سے ان کا فطری کام لینے میں توہین کے علاوہ نقاہت بھی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ان کی لکڑی کی بزنس اب کافی پھیل گئی تھی جسے وہ کبھی دوڑ دھوپ کا پھل اور کبھی اپنے والد بزرگوار کی جوتیوں کا طفیل بتاتے تھے، جب کہ خود بزرگوار اسے بھاگوان گھوڑے کے قدموں کی برکت پر محمول کرتے تھے۔ بہر صورت، قابلِ غور بات یہ کہ ان کی ترقی کا محرک اور سبب کبھی پیروں اور جوتیوں کی سطح سے اوپر نہیں گیا۔ کسی نے بلکہ خود انہوں نے بھی ذہانت اور فراست کو اس کا کریڈٹ نہیں دیا۔ لکڑی کی بِکری بڑھی تو دفتروں کے چکر بھی بڑھے۔ اسی قدر سواری کی ضرورت میں اضافہ ہوا۔ اس زمانے میں کمپنیوں میں رشوت نہیں چلتی تھی۔ لہٰذا کام نکالنے میں کہیں زیادہ ذلت و خواری ہوتی تھی۔ ہمارے ہاں ایمان دار افسر کے ساتھ مصیبت یہ ہے کہ جب تک بے جا سختی، خوردہ گیر اور اڑیل اور سڑیل پن سے سب کو اپنی ایمان داری سے عاجز نہ کردے، وہ اپنی ملازمت کو پکا اور خود کو محفوظ نہیں سمجھتا۔ بے ایمان افسر سے بزنس مین باآسانی نمٹ سکتا ہے، ایمان دار افسر سے اسے ہول آتا ہے۔ چنانچہ صورت یہ تھی کہ کمپنی سے لکڑی اور کھوکھوں کا آرڈر لینے کے لیے پانچ چکر لگائیں تو بل کی وصولی کے لیے دس چکر لگانے پڑتے تھے۔
جب سے کمپنیاں لیچڑ ہوئیں، انہوں نے دس پھیروں کا کرایہ اور محنت بھی لاگت میں شامل کر کے قیمتیں بڑھا دیں۔ ادھر کمپنیوں نے ان کی نئی قیمتوں کو لُٹس قرار دے کر دس فی صد کٹوتی شروع کردی۔ بات وہیں کی وہیں رہی۔ فرق صرف اتنا پڑا کہ ہر دو فریق ایک کو لالچی، کائیاں اور چور سمجھ کر لین دین کرنے لگے۔ اور یہ چوکس اور کامیاب بزنس کا بنیادی اصول ہے۔
( عہد ساز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ’’آبِ گم‘‘ سے اقتباس)