اردو زبان و ادب کے فروغ اور اپنے تخلیقی کاموں کی بدولت نام و مقام پانے والے یوسف ظفر کا تذکرہ آج بہت کم ہی ہوتا ہے، اور بالخصوص نئی نسل ان سے واقف نہیں ہے۔ وہ ایک کہنہ مشق شاعر، ادیب اور صحافی تھے۔ یوسف ظفر معروف ادبی جریدے ہمایوں کے مدیر اور حلقۂ اربابِ ذوق کی بنیاد ڈالنے والوں میں سے ایک تھے۔
یوسف ظفر یکم دسمبر 1914ء کو مری میں پیدا ہوئے۔ 1936ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ وہ پندرہ سال کے تھے جب والد اور اسی روز بڑی بہن کی اچانک وفات کا صدمہ اٹھانا پڑا۔ والد کے انتقال کے بعد گھر کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر آ گئی۔ یوسف ظفر نے کنبے کی ضروریات پوری کرنے کے دوران انتہائی نامساعد حالات میں اپنی زندگی بسر کی۔ وہ معاش کے لیے مشکلات کے سائے تلے جدوجہد میں مصروف رہے۔ اس کے ساتھ ان کا شعری سفر اور ادبی سرگرمیاں بھی ان کے ذوق و شوق کی تسکین کے ساتھ غمِ دوراں سے ان کے فرار کا بہانہ بنی رہیں۔ 1939ء میں یوسف ظفر نے مشہور شاعر میرا جی کے ساتھ حلقہ ارباب ذوق کی بنیاد ڈالی۔ قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے جہاں ادبی جریدے کی ادارت سنبھالی وہیں ریڈیو پاکستان سے بھی وابستہ ہوئے۔ وہ اسٹیشن ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔
شاعر و ادیب یوسف ظفر کے تخلیقی سفر کو سمجھنے کے لیے ان مرکزی تحریکات و رجحانات کو مدنظر رکھنا ہو گا جن سے اردو شعر و ادب توانا ہوتا رہا اور ان تحریکوں میں خاص طور پر ترقی پسند تحریک اور تحریک حلقۂ ارباب ذوق کا نام لیا جائے گا۔ لاہور میں حفیظ ہوشیار پوری کے زیر صدارت پہلے جلسہ کے بعد جب قیوم نظر، میرا جی، ن م راشد جیسے شعرا اور ادیبوں کے ساتھ یوسف ظفر بھی شامل ہوئے تو اس کے اغراض و مقاصد میں بھی توسیع ہوئی اور اس انجمن نے پاکستان بھر میں اہل قلم شخصیات کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔
یوسف ظفر کے شعری مجموعے نوائے ساز، عشق پیماں، حریمِ وطن، صدا بہ صحرا، زہر خند اور زنداں کے نام سے شایع ہوئی اور سوانح عمری ظفر کی بات کے عنوان سے منظر عام پر آئی۔ یوسف ظفر نے یہودیت موضوع پر بھی ایک کتاب تصنیف کی تھی۔
7 مارچ 1972ء کو راولپنڈی میں انتقال کرنے والے یوسف ظفر کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔
وہ میری جان ہے دل سے کبھی جدا نہ ہوا
کہ اس کا غم ہی مری زیست کا بہانہ ہوا
نظر نے جھک کے کہا مجھ سے کیا دم رخصت
میں سوچتا ہوں کہ کس دل سے وہ روانہ ہوا
وہ یاد یاد میں جھلکا ہے آئنے کی طرح
اس آئنہ میں کبھی اپنا سامنا نہ ہوا
میں اس کے ہجر کی تاریکیوں میں ڈوبا تھا
وہ آیا گھر میں مرے اور چراغ خانہ ہوا
وہ لوٹ آیا ہے یا میری خود فریبی ہے
نگاہ کہتی ہے دیکھے اسے زمانہ ہوا
اسی کی یاد ہے سرمایۂ حیات ظفرؔ
نہیں تو میرا ہے کیا میں ہوا ہوا نہ ہوا