خوش نویسی اور خطاطی نہ صرف ایک فن ہے بلکہ خاص طور پر اسلامی خطاطی کو نہایت متبرک اور باعثِ اجر و ثواب سمجھا جاتا ہے۔ محمد یوسف دہلوی نے اسی فنِ میں بڑا نام و مقام پایا۔
محمد یوسف دہلوی کو پاکستان ہی نہیں ہندوستان میں بھی استاذُ الاساتذہ تسلیم کیا گیا جنھوں نے اپنے تخلیقی وفور اور اختراع کاری سے خطِ نستعلیق کی طرز ایجاد کی جو ” دہلوی طرزِ نستعلیق” مشہور ہوئی۔ یوسف دہلوی کو اکثر خطّاطِ اعظم بھی لکھا جاتا ہے۔
خوش نویسی کی مختلف شکلیں ہیں۔ ان میں طغریٰ اور عام خطاطی شامل ہے اور اسی فن میں محمد یوسف دہلوی نے بڑا کمال دکھایا اور ایک خطاط کے طور پر شہرت پائی۔ 11 مارچ 1977 کو یوسف دہلوی ٹریفک حادثے میں زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ ان کے والد منشی محمد الدین جنڈیالوی بھی خطاط تھے جنھوں نے 1932 میں غلافِ کعبہ پر خطاطی کا شرف حاصل کیا۔ یوسف دہلوی نے انہی سے ذوقِ خوش نویسی سمیٹا تھا۔ وہ مختلف خوش نویسوں اور اپنے دور کے باکمال خطاطوں کے فن پاروں کا گہرائی سے مطالعہ کرتے رہے اور اس فن میں اپنی اختراع اور اجتہادی صلاحیتوں کے سبب ممتاز ہوئے۔ انھوں نے ایک نیا طرز متعارف کروایا جسے دہلوی طرزِ نستعلیق کہا جاتا ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد محمد یوسف دہلوی نے اس وقت کے وزیرِاعظم لیاقت علی خان کی درخواست پر اور ڈاکٹر ذاکر حسین کی کوششوں سے پاکستان کے کرنسی نوٹوں پر اپنے فنِ خطاطی کا مظاہرہ کرنے پر آمادگی ظاہر کی اور یہ کام انجام تک پہنچایا۔ بعد ازاں پاکستان ہجرت کرکے مستقل سکونت اختیار کرلی اور ایک بار پھر یہاں سکوں پر لفظ حکومتِ پاکستان نہایت خوب صورت انداز میں تحریر کیا۔
یوسف صاحب کے فن سے متعلق متعدد واقعات بھی مشہور ہیں۔ یہاں ہم ایک ایسا ہی واقعہ پیش کررہے ہیں جس کے راوی محمد یوسف دہلوی کے ایک شاگرد نسیمُ الحق عثمانی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
"یوسف صاحب جب دہلی بلّی ماراں کے ایک کوٹھے پر بیٹھتے تو اس وقت کے ممتاز خطاط وہاں روزانہ حاضری دیتے۔ حضرت باقی امروہوی جو نہ صرف بہت اچھّے خوش نویس تھے بلکہ ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے، آپ کے بے تکلّف دوستوں میں سے تھے۔
ایک روز سب دوستوں کے مشورے سے باقی صاحب نے یوسف صاحب کے سامنے خطّاطی کے ایک مقابلے کی تجویز رکھی اور کہا کہ ناکام ہونے والے کو ہم سب کو بٹیر کھلانا ہوگا۔ یوسف صاحب نے یہ شرط منظور کر لی۔ طے یہ پایا تھا کہ سب دوست وقتِ معینہ پر دریائے جمنا کے کنارے پہنچیں گے۔ ایسا ہی ہوا۔ وہاں سب سے پہلے یوسف صاحب نے لکھنا شروع کیا اور مچھلی کے شکار کی چھڑی سے اردو حروف تہجّی (ا۔ ب۔ ج۔ د) لکھنے شروع کر دیے۔ ابھی س۔ ش تک ہی پہنچے تھے کہ کئی فرلانگ کا سفر طے ہو گیا۔ اس پر سب لوگوں نے کہا کہ خدا کے لیے بس کرو، تم جیتے اور ہم ہارے۔ لیکن یوسف صاحب کا تقاضا تھا کہ نہیں پورے حروف لکھے بغیر نہیں مانوں گا، خواہ آگرے تک جانا پڑے اور پھر بڑی منت سماجت کے بعد منشی جی اپنی ضد سے باز آئے اور بعد میں فرمایا کہ اس ریت پر جو حروف میں نے لکھے ہیں اس کی تصویر جہاز کے ذریعے لے لی جائے اور تصویر میں اگر کوئی حرف فنِ خطاطی کے اصولوں کے خلاف ہو تو میں خطا وار۔”
محمد یوسف دہلوی نے ریڈیو پاکستان کا مونو گرام بھی بنایا تھا جو قرآنی آیت قُولُوالِلنَّاسِ حُسناً پر مشتمل ہے اور ان کے کمالِ فن کا ایک خوب صورت نمونہ ہے۔