تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

جنوری 1838ء: شہر لزبن میں‌ ایک سیّاح نے کیا دیکھا؟

ستائیسویں جنوری 1838ء کی شہر لزبن میں پہنچا۔ وہ ہے دارُ السلطنت پرتکیزوں کا۔ وہاں جہاز تھے اور بھی کئی۔ ایک ڈونگی پرتکیزوں کی ہمارے جہاز کو راہ بتانے آئی۔ لزبن کنارے دریا ٹیکس کے ہے۔ جب جہاز ہمارا وہاں پہنچا، ہوا کا زور تھا مگر استادیِ کپتان سے جہاز سلامت رہا۔

نیوٹن صاحب سوداگر میرے دوست تھے۔ وہ اس شہر میں تشریف رکھتے۔ جب میرے آنے کی خبر پائی، بہت تکلف سے دعوت میری کی۔ کئی طرح کا کھانا میرے لیے پکوایا۔ جب اس کو کھایا، دل کو بھایا۔ پھر سیرِ شہر کو چلا۔ وہاں کے آدمیوں کو کج اخلاق پایا۔ حسن و جمال عورتوں کا بہ نسبت لندن کے کم تھا۔

بار برداری کی گاڑیوں میں بیل لگے تھے۔ رستے بازار کے صاف ستھرے تھے مگر دکانیں بمقابلہ لندن اور فرانس کے بد قرینے۔ ایک کلیسا عجب وضع کا بنا تھا۔ تصویریں حضرت عیسیٰ اور مریم اور حواریوں کی نفیس بنی ہوئی رکھیں، ان پر کام سونے کا۔ دو تین باغ دیکھے، بہت اچھے تھے۔

ایک دن ناچ گھر کا تماشا دیکھنے گیا۔ شہزادی حاکمہ بھی آئی۔ میرے قریب بیٹھی۔ شوہر اس کا ایک امیر زادہ، بہت خوب صورت اور وجیہ ہمراہ تھا۔ سن و سال میں بیس برس کا۔ بندہ آدھی رات تک کیفیت دیکھتا رہا۔ پھر اٹھ کر باہر آیا اور ملاح سے کہا کہ ناؤ پر سوار کر کے مجھ کو جہاز تک پہنچا دے۔ اس نے انکار کر کے کہا کہ رات کو ہمارے شہر میں کسی کو ناؤ پر نہیں چڑھاتے۔ یکبارگی مینھ بھی برسنے لگا۔ تب میں مجبور ہو کر سرا میں شب باش ہوا۔

صبح اٹھ کر پھر سیر کو چلا۔ مکانات دیکھے، اوندھے پڑے۔ حال ان کا پوچھا، لوگوں نے کہا اسّی برس کا عرصہ ہوا کہ یہاں ایک بڑا زلزلہ آیا تھا، ساٹھ ہزار آدمی اس میں مر گئے، بہت مکان اس میں گر گئے۔ پانی دریا کا اپنے ٹھکانے سے ہٹ گیا تھا۔ بعد اس کے اس آبادی کا جو تم دیکھتے ہو، اتفاق ہوا۔ یہ حال دیکھ کر گھبرایا۔

دوسرے دن تیسرے پہر تک پھر سیر کرتا رہا۔ بعد اس کے جہاز وہاں سے رواں ہوا۔ میں اس پر سوار ہوا۔ کتنے صاحب اور بی بیاں اور بھی تھیں۔ بی بی اسمٹ بھی مع دونوں بیٹیوں پری زاد کے اس پر سوار ہوئیں۔ حرکتِ جہاز سے دونوں پریاں متلی اور ابکائی میں گرفتار ہوئیں۔ جہاز پر چڑھ کر نہایت بیزار ہوئیں۔ سچ ہے سواری جہاز کی عورتوں کو بہت ایذا دیتی ہے۔ مجھ کو ان کی بے چینی سے بے قراری تھی۔

دو تین دن میں جہاز جاتے جاتے تیسرے پہر کو قریب شہر کندس کے ٹھہرا۔ کئی اسپانیوں نے کشتیوں کو ہمارے جہاز پاس پہنچایا۔ اکثر صاحب واسطے سیرِ شہر کے ناؤ پر سوار ہوئے۔ ہم بھی مدت سے مشتاق اس شہر کے دیکھنے کے تھے۔ ناؤ پر چڑھے بعد اس کے مینھ آیا۔ ہر شخص جہاز پر پھر گیا۔ مگر بندہ ناؤ پر بیٹھا رہا۔ اسپانیل جو ملاح تھے اپنی زبان میں باہم باتیں کرتے اور میرے مونھ کی طرف دیکھتے، بلا تحاشا ناؤ کو کنارے لیے جاتے۔

ہر چند میں نے کنارے جانے سے انکار کیا، پر انھوں نے میری بات نہ سنی۔ ظاہراً معلوم ہوتا کہ کنارے لے جا کر گھڑی اور اسباب طلائی میرا چھین لیتے اور جان سے ہلاک کرتے۔

ناگاہ جہاز کے چھوٹے کپتان نے میرے حال پر رحم کیا، چھوٹی ناؤ پر سوار ہو کر میری ناؤ کو خارِ آہنی سے اپنی طرف کھینچ کر جہاز پر پہنچایا اور اس آفت سے مجھ کو بچایا۔ بہ سبب مینھ کے اس شہر میں جانے کا اتفاق نہ پڑا، مگر سامنے سے بخوبی نظر آتا۔ عمارت عالی شان، وہاں حسن و جمال کی کان تھی۔ بیرن شاعر نے وہاں کے حسن کی تعریف کی ہے۔ دادِ سخن وری دی ہے۔

(یہ پارہ ‘تاریخِ یوسفی المعروف بہ عجائباتِ فرنگ’ سے نقل کیا گیا ہے، جسے اردو کا پہلا سفرنامہ کہا جاتا ہے، یوسف خان کمبل پوش نے اسے 1847ء میں شایع کروایا تھا)

Comments

- Advertisement -