تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

خوش نصیب ملک!

دنیا میں کوئی ایسا خوش نصیب ملک نہیں ہے جہاں ادیب پیدا نہ ہوتے ہوں۔

بہت سے ملک ایسے ہوتے ہیں، جہاں ادیبوں کو فرش وغیرہ پر بیٹھنے نہیں دیا جاتا۔ انہیں وہاں کے لوگ ہمیشہ سر آنکھوں پر بٹھائے رکھتے ہیں۔ ان ادیبوں کو بھی لوگوں کے سروں پر بیٹھے رہنے کی اتنی عادت ہوتی ہے کہ پھر یہ کہیں اور بیٹھ ہی نہیں سکتے۔ بہت سے ملک ایسے بھی ہوتے ہیں، جہاں ادیبوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے اور ان کا بچا کھچا حصّہ ان کے ورثا کو بڑی مشکل سے واپس ملتا ہے، بلکہ بعض صورتوں میں تو یہ حصّہ بھی میونسپلٹی کے حصّے میں آتا ہے۔ اب یہ ادیب کی قسمت پر منحصر ہے کہ وہ کہاں پیدا ہوتا ہے۔ اگر اس کے ہاتھ کی لکیریں اچھی ہیں اور اس کے والدین سعادت مند ہیں تو یقیناً ایسے ملک میں پیدا ہوا ہو گا، جہاں خرافات لکھنے پر باز پرس نہیں کی جاتی۔

ادیبوں کے بہت سے حقوق ہوا کرتے ہیں، جن میں سے چند حقوق پیدائشی ہوتے ہیں۔ خرافات لکھنا پیدائشی حقوق کی فہرست میں آتا ہے۔ اچھا ادیب وہ ہوتا ہے، جو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دے۔ دودھ خود پی لے اور پانی اپنے پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کردے۔

اچھا ادیب اسے بھی مانا گیا ہے جو قلم توڑ دے، اس ادیب کے ساتھ مشکل یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک قلم توڑ کر چپ نہیں بیٹھ جاتا، بلکہ دوسرے قلم سے لکھنا شروع کر دیتا ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ وہی پہلے والا قلم غنیمت تھا، لیکن جو قلم ٹوٹ گیا، ٹوٹ گیا۔ سمجھدار لوگ اسی دوسرے قلم سے نکلی ہوئی تحریر کو صبر و شکر کے ساتھ سہہ لیتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ کم سے کم یہ قلم تو نہ ٹوٹے۔ ادیب کو ہمیشہ لگن سے لکھنا چاہیے۔ لوگ چاہے کتنا ہی منع کریں، لکھنے سے کبھی باز نہ آئے۔ لوگ خود ہی عادی ہو جائیں گے۔ یوں بھی لوگوں میں مدافعت کا مادّہ کم ہی ہوتا ہے اور جو کچھ ہوتا ہے، وہ ادیبوں کے مقابلے میں استعمال نہیں کیا جاتا۔ جو ادیب اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھاتے، وہ غبی ہوتے ہیں۔

ادیبوں کی صحبت کے کئی فائدے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ مشتبہ قسم کے لوگ اگر ادیبوں کی صحبت میں بیٹھیں تو انہیں کوئی نہیں پہچان سکتا۔

عام آدمیوں کی طرح ادیبوں کی بھی دو ٹانگیں ہوتی ہیں۔ لیکن اُن کی ایک ٹانگ ہمیشہ اونچی رہتی ہے۔ غیر ادیبوں کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہے۔ مساوات ہر معاملے میں اچھی بھی نہیں معلوم ہوتی۔ ادیب کی اس اونچی ٹانگ کو گھسیٹنا مشکل ہے۔ ادیبوں کی ناک بھی خلافِ معمول اونچی ہوتی ہے اور اس ناک کو اونچا رکھنے کے سلسلے میں ادیب راستہ چلتے وقت نیچے نہیں دیکھا کرتے، البتہ بعد میں صرف یہ دیکھ لیتے ہیں کہ گرنے پر انہیں زیادہ چوٹ تو نہیں لگی۔ ادیب کی ناک پر مکھی بھی نہیں بیٹھ سکتی۔ خود مکھیوں کو بھی اِس قاعدے کا علم ہے اور وہ اپنے بیٹھنے کے لیے کسی اور معقول شخص کی ناک کا انتخاب کرلیتی ہیں۔ آرام دہ نشستوں کی اس وسیع دنیا میں کمی نہیں ہے۔

پہلے زمانے میں سُنا ہے ادیب پیدائشی ہوا کرتے تھے اور جس گھر میں پیدا ہوجاتے، اس گھر پہلے ہی دن سے رونا پیٹنا شروع ہوجاتا، لیکن اب قدرت کو والدین پر رحم آنے لگا ہے۔ اب ہر گھرمیں صرف آدمی پیدا ہوتے ہیں، البتہ آگے چل کر اُن میں سے کچھ ادیب بن جاتے ہیں۔ اپنے اپنے کرتوت ہیں۔ اس کی ذمہ داری اب قدرت پر نہیں ڈالی جا سکتی۔

ادیبوں کے پاؤں میں سنیچر ہوتا ہے اور سر میں اتوار، یعنی بالکل چھٹی۔ ادیبوں میں ایک بات اچھی ہوتی ہے کہ یہ جو کچھ لکھتے ہیں، خود نہیں پڑھتے۔ اگر خود پڑھ لیں تو آیندہ کبھی نہ لکھیں۔ یہ اسی سے ڈرتے ہیں اور دوسروں کا لکھا ہوا نہیں پڑھتے۔ اس کے باوجود اگر ان کے خیالات کسی اور کے پراگندہ خیالات سے ٹکرا جائیں تو اس میں ان کا قصور نہیں ہوتا، نظامِ شمسی کا ہوتا ہے۔ جو نظامِ شمسی ادیبوں کے مشورے کے بغیر بنے گا، اس میں یہی خرابی ہو گی۔ اگر ادیبوں کے خیالات کسی وجہ سے ایک دوسرے سے نہ ٹکرائیں تو ادیب خود ٹکرا جاتے ہیں۔ ادیبوں ہی کی دیکھا دیکھی کئی ملکوں میں بُل فائٹنگ اور گھونسا بازی کے مقابلے مقرر کیے جاتے ہیں۔

ادیب دیکھنے میں بے ضرر نظر آتے ہیں، لیکن یہ اندر ہی اندر بڑے جنگ جُو ہوتے ہیں۔ تحریر و تقریر کی آزادی کے لیے انہوں نے “ پانی پت” اور “واٹر لو” کی کئی لڑائیاں لڑی ہیں۔ اِن لڑائیوں میں جب بھی اور جہاں بھی ادیب جیتے ہیں، وہاں ہر قسم کے ادب کے ڈھیر کے ڈھیر لگ گئے، اور اقوام و افراد بے بس ہو کر رہ گئے۔ بعض ملکوں میں ادیبوں کو لکھنے پر اور بعض ملکوں میں نہ لکھنے پر انعامات دیے جاتے ہیں۔ کس میں نقصان اور کس میں فائدہ ہے، ابھی تک طے نہیں ہوا ہے۔ یوں بھی ادیبوں کے سلسلے میں کوئی بات طے ہو ہی نہیں سکتی۔ ظلم اور ادب ہمیشہ غیر محدود رہے ہیں۔

بعض ادیب بے حد بے دردی سے لکھتے ہیں اور کاغذ پر اپنا کلیجہ نکال کر رکھ دیتے ہیں۔ اس صورتِ حال کی وجہ سے پڑھنے والا کچھ بھی نہیں پڑھ سکتا۔ خود اُس کا کلیجہ منہ کو آجاتا ہے اور بڑی مشکل سے واپس جاتا ہے۔

ادیبوں کو لکھنے سے جب بھی فرصت ملتی ہے، وہ اور زیادہ لکھتے ہیں۔ وہ اصل میں اُس شخص کی طرح ہوتے ہیں، جو لیٹے لیٹے تھک جاتا ہے تو اور آرام کرتا ہے۔ ادیب بھی جب ایک چیز لکھتے لکھتے تھک جاتا ہے تو دوسری چیز لکھنے لگتا ہے اور پہلے کے لکھے ہوئے علمی مضمون کے صفحے، بعد کے لکھے ہوئے سیاسی مضمون کے صفحوں میں مل جاتے ہیں اور ادیب کو فرصت نہیں ملتی کہ انہیں چھانٹ سکے۔ پڑھنے والوں کی قسمت میں یہی دو رنگی مضمون ہوتا ہے۔ ایڈیٹر اس مضمون کو صرف اس لیے چھاپ دیتا ہے کہ اس کی سمجھ سے بالاتر ہوتا ہے۔ ادب کی ترویج و اشاعت کے لیے ضروری ہے کہ ہر وہ مضمون جو سمجھ میں نہ آئے، ہر حال میں چھاپا جائے۔ اخباروں اور رسالوں میں صرف اشتہارات ہی اچھے نہیں معلوم ہوتے، ایک آدھ مضمون چھپنا ہی چاہیے۔

(اردو کے معروف طنز و مزاح نگار یوسف ناظم​ کی اہلِ قلم سے متعلق شگفتہ بیانی)

Comments

- Advertisement -