جمعرات, جولائی 3, 2025
اشتہار

ظفر خان: افسانوی شہرت کا حامل سپاہ سالار

اشتہار

حیرت انگیز

دنیا کی تاریخ میں صرف بڑے بڑے بادشاہوں اور حکم رانوں کا تذکرہ ہی پڑھنے کو نہیں ملتا بلکہ ان کے ایسے جاں نثاروں کا بھی ذکر آتا ہے جنھوں نے دشمن کی فوج سے لڑتے ہوئے شجاعت کی داستانیں رقم کیں اور میدانِ جنگ میں اپنا پرچم بلند رکھنے کے لیے جان بھی قربان کر دی۔ ان میں ایک سپاہ سالار ظفر خان بھی شامل ہے جسے تاریخ میں افسانوی حیثیت حاصل ہوئی۔

ظفر خان، علاء الدین خلجی جیسے زبردست جرنیل بادشاہ کے دور میں منگولوں کو شکست دینے کے لیے مشہور ہے۔ علاء الدّین خلجی کو تخت پر بیٹھے ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ چغتائی حکمران دووا تیمور خان کے حکم پر ایک بہت بڑا لشکر ہندوستان میں داخل ہو گیا۔ علاء الدّین نے اپنے سالار بدر الدّین ظفر خان اور اپنے بھائی اُلغ خان کو اُن کے مقابلے کے لیے بھیجا اور انھوں نے اپنی فوج کی مدد سے جالندھر کے قریب منگولوں کو شکست دی۔ اسی ظفر خان نے بعد ازاں 1299ء میں سندھ میں بھی منگولوں کے قدم اکھاڑ دیے تھے اور یوں اسے تاریخ میں ایک اہم سپاہ سالار کے طور پر جگہ ملی۔ اسے ہندوستان اور طول و عرض میں‌ انہی فتوحات کی بدولت شہرت بھی ملی اور دوسری طرف اس کے حاسدوں کی تعداد بھی بڑھ گئی۔ ان حاسدین میں خود علاء الدّین کا بھائی اُلغ خان بھی شامل تھا۔ مؤرخین کے مطابق سندھ سے منگولوں کو نکالنے کے بعد 1299ء میں اُسی سال چغتائی خان دووا تیمور کا بیٹا قتلغ خواجہ ایک بڑا لشکر لے کر ہندوستان کی جانب بڑھا۔ وہ تختِ دلّی پر قبضہ کرنے کے ارادے سے نکلے تھے۔ راستے میں پنجاب میں ظفر خان نے قتلغ خواجہ کا راستہ روکا اور اسے للکارا لیکن مشہور ہے کہ اس نے ظفر خان سے الجھنے کے بجائے یہ پیغام دیا کہ "بادشاہ صرف بادشاہوں سے مقابلہ کرتے ہیں۔” ادھر دلّی میں منگولوں کے خلاف میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پھر دلّی کے شمال میں کیلی کے میدان میں ہندوستانی اور منگول افواج آمنے سامنے آگئیں۔ سپاہ سالار ظفر خان مرکز میں پہنچ چکا تھا اور دشمن سے لڑنے کے لیے بہت بے چین تھا، کیوں کہ وہ قتلغ خواجہ کے طعنے کا جواب دینا چاہتا تھا۔

جنگ کے میدان میں ظفر خان نے پیش قدمی کی اور مؤرخین کے مطابق منگولوں پر اس کا حملہ اتنا زبردست تھا کہ منگولوں کا بایاں بازو مکمل طور پر پسپا ہو گیا۔ لیکن ایک حکمتِ عملی کی وجہ سے منگولوں کے ہاتھوں ہندوستانی سپاہیوں کو بھی بڑا نقصان پہنچا۔ جب منگولوں کے ایک بڑے دستے کے قدم اکھڑتے دیکھے تو ہندوستانی سپاہی اس کے تعاقب میں‌ دوڑے اور اس دوران وہ اپنے دوسرے ساتھیوں سے دور نکل گئے اور ان کی طاقت بٹ گئی۔ دوسری طرف وہ منگول دستے جو ظفر خان کے حملے سے محفوظ رہے تھے، انھوں نے اس کا فائدہ اٹھایا۔ ایک مقام پر یہ گھات لگا کر ظفر خان کے لشکر کی واپسی کے منتظر رہے اور وہ جب منگولوں کے اس دستے کو بھگانے کے بعد لوٹ رہا تھا اسے ہر طرف سے گھیر لیا۔

تاریخ بتاتی ہے کہ اس موقع پر ظفر خان نے بے مثال شجاعت کا مظاہرہ کیا اور اس بے جگری سے لڑا کہ خود قتلغ خواجہ بھی اس کی داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔ بعض مؤرخین لکھتے ہیں کہ اس نے ظفر خان کو پیشکش کی کہ وہ منگول فوج کا حصہ بن کر کہیں زیادہ عزت و احترام پاسکتا ہے، مگر ظفر خان ایک خوددار جرنیل تھا، اس نے بادشاہ سے وفاداری کا اعلان کیا اور لڑتے لڑتے اپنی جان دے دی۔ منگولوں نے ظفر خان کو تو ٹھکانے لگا دیا لیکن رات کی تاریکی میں ہی پسپائی اختیار کر لی اور اپنی سرحدوں پر جا کر دَم لیا۔ اس اچانک پسپائی کی اصل وجہ ظفر خان کے خلاف لڑتے ہوئے قتلغ خواجہ کا زخمی ہو جانا تھا۔ قتلغ خواجہ وطن پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں دَم توڑ گیا۔

اس بات میں‌ کتنی صداقت ہے یہ نہیں کہا جاسکتا، لیکن مشہور ہے کہ ظفر خان کی ہیبت عرصۂ دراز تک منگولوں کے دلوں پر طاری رہی اور جب اُن کا کوئی جانور پانی نہیں پیتا تھا تو محاورتاً کہا جاتا تھا کہ کیا ظفر خان کو دیکھ لیا ہے جو پانی نہیں پی رہا؟

ظفر خان کا مکمل نام بدر الدّین ظفر خان پڑھنے کو ملتا ہے لیکن اس کی ابتدائی زندگی کے متعلق بہت کم معلومات دست یاب ہیں۔ پندرہویں صدی عیسوی کے ایک وقائع نگار یحیٰی بن احمد سرہندی نے اس کا اصل نام یوسف تحریر کیا ہے جو علاء الدّین کا بھانجا یعنی ان کی بہن کے فرزند تھا، جب کہ سولہویں صدی عیسوی کے مؤرخ عبد القادر بدایونی نے بدر الدّین نام لکھا ہے۔

ظفر خان نے علاء الدّین کی افواج کی اس وقت بھی سربراہی کی تھی جب وہ سلطان نہیں بنے تھے۔ کڑہ میں سلطان جلال الدّین خلجی کے قتل کے بعد انھوں نے علاء الدّین کے لشکر کی دو ٹکڑیوں میں سے ایک کی قیادت کی اور دلّی میں خیمہ زن ہوا تھا۔ علاء الدّین خلجی نے تخت پر متمکن ہونے کے بعد ظفر خان کو وزیرِ جنگ کے منصب پر مامور کیا تھا۔ بدر الدّین جو اپنے لقب ظفر خان سے زیادہ مشہور ہے، سلطنتِ دہلی کی جانب سے کئی بڑے شہروں کے عامل بھی رہے۔

ظفر خان کے معرکۂ کیلی میں منگولوں سے لڑائی کا آغاز کرنے سے متعلق ایک بات یہ بھی تاریخی کتب میں ملتی ہے کہ انھوں نے جنگ میں بادشاہ کے احکامات پر عمل نہیں کیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ سلطنتِ دہلی کی اس وقت کی دستاویز میں ظفر خان کی اس جرأت مندانہ پہل اور منگولوں سے بے جگری سے مقابلہ کا ذکر نہیں ملتا۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں