اردو زبان میں جاسوسی ادب تخلیق کرنے والوں میں ظفر عمر کا نام اوّلین ناول نگار کے طور پر پڑھنے کو ملتا ہے۔تقسیمِ ہند سے قبل ان کے کئی جاسوسی ناول مقبول ہوئے۔ اس دور میں عالمی ادب سے تراجم کو بہت شوق سے پڑھا جاتا تھا اور جاسوسی کہانیاں ہندوستان بھر میں مقبول تھیں اور جب ظفر عمر کا پہلا جاسوسی شایع ہوا تو قارئین نے اسے بہت پسند کیا۔
ظفر عمر نے 1916ء میں اپنا پہلا جاسوسی ناول بعنوان "نیلی چھتری” تحریر کیا تھا، جس کا مرکزی کردار ‘بہرام’ تھا۔ اس ناول کو غیر معمولی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی اور اس کے بعد مصنّف نے ‘بہرام کی گرفتاری’، ‘چوروں کا کلب’ اور ‘لال کٹھور’ کے نام سے مزید جاسوسی ناول تحریر کیے۔ مشہور ناقد اور ادبی کالم نگار مشفق خواجہ کے مطابق ظفر عمر کے ناولوں کا آغاز اور واقعات کا ارتقاء ڈرامائی ہوتا ہے۔ وہ تاریخی اہمیت کے حامل شہروں میں مدفون خزانوں کو اپنے ناولوں کی بنیاد بناتے ہیں۔ واقعات کے بیان میں اختصار کے ساتھ، کہانی کے تذبذب، اتار چڑھاؤ، جرائم کا ڈرامائی بیان، قاری کی دل چسپی اور انہماک میں اضافہ کرتا ہے۔
ناول نگار ظفر عمر 1884ء کو تھانہ بھون، ضلع مظفرنگر میں پیدا ہوئے۔ ایم اے او علی گڑھ سے 1902ء میں گریجویشن میں اوّل آئے۔ وہ کالج کی فٹ بال ٹیم کے کپتان بھی رہے تھے۔ ظفر عمر بعد میں نواب محسن الملک کے پرائیویٹ سیکرٹری بنے اور بیگم بھوپال کے بھی پرائیویٹ سیکرٹری رہے۔ وہ والئ بھوپال حمید اللہ خان کے اتالیق بھی تھے۔ سرکاری عہدوں پر فائز رہنے والے ظفر عمر محکمہ پولیس سے بطور سپرنٹنڈنٹ 1937ء میں ریٹائر ہوئے۔ ان کی دختر بیگم حمیدہ اختر حسین رائے پوری پاکستان سے تعلق رکھنے والی اردو کی نامور مصنفہ اور افسانہ نگار تھیں۔
جاسوسی ناول نیلی چھتری کی شہرت اور مقبولیت کے بعد ظفر عمر نے علی گڑھ میں اپنی کوٹھی کا نام بھی نیلی چھتری رکھ دیا تھا۔ ناول نگار نے انگریزی زبان میں ایک کتاب ” دی انڈین پولیس مین ” بھی تحریر کی تھی۔ ظفر عمر نے 4 دسمبر 1949ء کو لاہور میں وفات پائی اور میانی صاحب قبرستان میں سپردِ خاک کیے گئے۔