اردو ادب میں ظہیر کاشمیری کا نام زندہ رکھنے کے لیے ان کا ایک ہی شعر کافی ہے جو اکثر انقلابی اور احتجاجی جلسوں میں پڑھا جاتا ہے۔
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغِ آخرِ شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے
یہ شعر تقریر سے تحریر تک ہر مشہور شخصیت نے برتا اور آج بھی سیاسی و عوامی جلسوں کے دوران پنڈال میں گونجتا ہے۔ یہ شعر حق اور سچ کے راستے میں آگے بڑھنے والوں کا جوش و ولولہ بڑھاتا ہے۔ ظہیر کاشمیری ایک ممتاز ترقی پسند شاعر، صحافی اور نقاد تھے۔
ان کا اصل نام غلام دستگیر اور تخلّص ظہیر تھا۔ 1919ء میں امرتسر میں پیدا ہونے والے غلام دستگیر کا آبائی وطن کشمیر تھا۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انگریزی میں ایم اے کیا۔ شعر گوئی کا سلسلہ گیارہ برس کی عمر سے جاری تھا۔ بعد میں ڈرامہ اور مضمون نگاری کی طرف بھی مائل ہوئے۔ تقسیمِ ہند سے قبل ظہیر کاشمیری لاہور آگئے جہاں ابتدائی دور میں فلمی دنیا میں ادبی مشیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ مشہور رسالہ ’’سویرا‘‘ کی ادارت بھی کی۔ اس کے علاوہ روزنامہ مساوات میں بھی کام کیا۔
ظہیر کاشمیری ترقی پسند ادب سے وابستہ رہے اور شاعر و ادیب کی حیثیت سے اردو دنیا میں ممتاز ہوئے۔ ان کی تصانیف ’عظمتِ آدم‘، ’تغزل‘، ’چراغِ آخرِ شب‘، ’رقصِ جنوں‘، ادب کے مادّی نظریے‘ کے نام سے منظرِ عام پر آئیں۔ ظہیر کاشمیری کو بعد از مرگ حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔
فلمی دنیا میں ظہیر کاشمیری نے نغمہ نگار، مصنف اور ہدایت کار کے طور پر بھی کام کیا۔ انھوں نے ایک فلم تین پھول (1961) کے نام سے بنائی تھی اور یہ بے وفائی کے موضوع پر بننے والی ایک منفرد فلم تھی۔ لیکن ناکام ثابت ہوئی، اس کی کہانی، مکالمے اور منظرنامہ بھی ظہیر کاشمیری کا لکھا ہوا تھا۔
12 دسمبر 1994ء کو ظہیر کاشمیری انتقال کرگئے تھے۔ وہ لاہور میں آسودۂ خاک ہیں۔