لاہور : لاہور ہائیکورٹ نے زینب کے قاتل کی گرفتاری کے لئے آئی جی پنجاب کو 48 گھنٹوں کی مزید مہلت دے دی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پولیس پہلے واقعات کے بعد سنجیدہ اقدامات کرتی تو زینب اور دیگر بچیوں کو بچایا جا سکتا تھا۔
تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ آئی جی پنجاب قصور میں مصروفیت کی بناء پر عدالت پیش نہ ہوئے۔
ایڈیشنل آئی جی کی جانب سے عدالت میں رپورٹ پیش کی گئی۔
ایڈیشنل آئی جی نے کہا کہ زینب کے ملزم کی گرفتاری کے لئے تفتیشی ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں جلد ملزم تک پہنچ جائیں گے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب میں گذشتہ دو برسوں میں دس سال سے کم عمر بچوں اور بچیوں سے زیادتی کے تیرہ سو چالیس واقعات پیش آئے، قصور شہرمیں دو برسوں کے دوران چوبیس کم سن بچوں اور بچیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
آئی جی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ زینب کا قتل کرنے والا سیریل کلر ہے، قتل کرنے والےشخص کی ڈی این اے کی رپورٹ آگئی، زینب کاقاتل وہی ہےجس نے پہلے 7بچیوں کوقتل کیا، سیریل کلر نے پہلا قتل جون2015میں کیا۔
ڈی جی فرانزک سائنس لیبارٹری نے عدالت کو آگاہ کیا کہ گذشتہ چھ دنوں میں گیارہ سو مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کی گئی، چھیانوے مشتبہ افراد کے ڈین این اے کے نمونے لئے گئے۔
چیف جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بچے سب کے سانجھے ہیں ، پہلےملزم کوگرفتارکرنےکیلئےکارروائی کیوں نہیں کی گئی، 4ماہ میں صرف67لوگوں کاڈی این اےٹیسٹ ہوا، اب 100،100افرادکاڈی این اےٹیسٹ کیاجارہاہےاگر پہلے سنجیدہ اقدام ہوتا توآج زینب زندہ ہوتی۔
ڈی جی فرانزک نے بتایا کہ 200افرادکےڈی این اےٹیسٹ کیےمگرمیچ نہیں ہوا ملزم قصورمیں ہے توبچ نہیں پائے گا۔
عدالت نے قصور میں دو چائلڈ کورٹس تشکیل دیتے ہوئے بچوں سے زیادتی کے مقدمات کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی ہدایت کر دی جبکہ عدالت نے قصور میں جنسی زیادتی کا شکار ایک اور بچی کائنات کا مکمل علاج کروانے کا حکم دے دیا۔
مزید پڑھیں : چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا زینب کے قاتل کو گرفتار کرنے کیلئے 36گھنٹے کا الٹی میٹم
عدالت نے کیس کی سماعت سترہ جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے آئی جی پنجاب، جے آئی ٹی کے سربراہ، سیکرٹری صحت پنجاب اور سیکرٹری ایجوکیشن کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔
یاد رہے گذشتہ سماعت میں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے آئی جی پنجاب کو قصور میں سات سالہ بچی کے قاتل کو گرفتار کرنے کے لئے چھتیس گھنٹے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے پنجاب بھر میں معصوم بچیوں اور بچوں سے زیادتی کے تمام مقدمات کا ریکارڈ طلب کر لیا تھا۔