اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں بچوں کےاغوا، زیادتی اور قتل میں ملوث مجرموں کو سر عام پھانسی دینے کی تجویز دی گئی جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ اجلاس میں قصور میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والی 7 سالہ زینب کے والدین بھی شریک تھے۔
تفصیلات کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں قصور کی زینب اور مردان میں عاصمہ کے قتل کی مذمتی قرارداد منظور کی گئی۔
سینیٹ کمیٹی کے اجلاس میں پنجاب پولیس کے حکام بھی شریک تھے۔ اس موقع پر چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ پوری قوم جاننا چاہتی ہے زینب کے قاتل کون ہیں۔ تجویز دیں گے ایسے جرائم کے مرتکب افراد کو پھانسی دی جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ننھے بچوں کی آہوں کا جواب نہیں دے سکتے تو ہم ناکام ہیں۔
مزید پڑھیں: زینب کو قریبی گھر میں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا
اجلاس میں منظور کی گئی قرراداد میں کہا گیا کہ بچوں سے اغوا اور زیادتی کے مجرموں کو پھانسی پر لٹکایا جائے جبکہ بچوں سے زیادتی اور دیگرجرائم کے بارے میں کمیشن قائم کیا جائے۔
زینب کے والدین کا بیان
اجلاس میں زینب کے والد امین انصاری کا کہنا تھا کہ پولیس نے زینب کے اغوا کے بعد 5 دن تک کچھ نہیں کیا۔ 5 دن پولیس والے آتے تھے، کینو کھا کر چلے جاتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نے سراغ رساں کتوں کو بلانے کا کہا اور اس کا خرچہ بھی دیا لیکن کتے نہیں لائے گئے۔ ان کے مطابق اب تک ان کے خاندان کے کم سے کم 100 لوگوں کا ڈی این اے کروایا جا چکا ہے۔
زینب کے والدین کا مزید کہنا تھا کہ پولیس ہمارے ارد گرد رہنے والوں کو تنگ کر رہی ہے۔ ’ہمارے رشتے دار گھر آکر کہتے ہیں ہمارا کیا قصور ہے پولیس ہمیں تنگ کر رہی ہے‘۔
امین انصاری کا مزید کہنا تھا کہ گرفتار لوگوں میں سے 3 مشکوک ہیں جن میں عمر، آصف اور رانجھا شامل ہیں۔ ’قصور کی ایک اور بچی اغوا ہوئی لیکن اس کا مقدمہ درج نہیں ہوا، پولیس نے اس متاثرہ خاندان کو ڈرایا ہوا ہے‘۔
اجلاس میں زینب کی والدہ نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ بس درخواست ہے قاتل کو جلد سے جلد گرفتار کیا جائے۔ قاتل کو گرفتار کر کے ایک بار ماں کی عدالت میں لایا جائے۔
مزید پڑھیں: اپنے بچوں کو زینب کے ساتھ پیش آنے والی بربریت سے بچائیں
انہوں نے کہا کہ پولیس کہتی ہے زینب کا قاتل سیریل کلر ہے۔ پولیس کی چھوٹ کی وجہ سے ہی ملزم سیریل کلر بنا ہے۔
ڈی آئی جی مردان کی بریفنگ
اجلاس میں ڈی آئی جی مردان نے 4 سالہ عاصمہ کے زیادتی و قتل کے کیس سے متعلق بریفنگ دی۔ ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ بچی عاصمہ 13 جنوری کو اغوا ہوئی۔ پوسٹ مارٹم میں قتل کی وجہ گلا دبانے سے بیان کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ زیادتی، قتل اور انتقام کو مد نظر رکھ کر تحقیقات کی جارہی ہیں جبکہ جیو فینسنگ اور تحقیقات کو ہر طرح سے آگے بڑھایا جارہا ہے۔
مجرم کو سر عام پھانسی دینے کی تجویز
اجلاس میں چیئرمین سینیٹ قائمہ کمیٹی داخلہ نے شق 264 اے میں ترمیم کی تجویز دی۔ انہوں نے تجویز دی کہ بچوں کے اغوا، زیادتی اور قتل میں ملوث مجرموں کو سر عام پھانسی دی جائے۔
تجویز میں کہا گیا کہ ایسے مجرموں کو صرف سزائے موت ہونی چاہیئے۔ قائمہ کمیٹی نے متفقہ طور پر تجویز منظور کرلی اور وزارت داخلہ کو عملدر آمد کی ہدایت کردی۔
یاد رہے کہ قصور کی ننھی زینب کو اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب اس کے والدین عمرے کی ادائیگی کے لیے گئے ہوئے تھے۔ 3 روز بعد زینب کی لاش کچرے کے ڈھیر سے ملی تھی۔
زینب کو سفاک درندوں نے زیادتی کا نشانہ بنانے کا بعد قتل کردیا تھا۔ سپریم کورٹ اور آرمی چیف کے نوٹس کے باوجود پولیس تاحال ملزم کو پکڑنے میں ناکام ہے۔
اس کے 3 روز بعد صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر مردان میں گوجر گڑھی کے علاقے جندر پار میں 4 سالہ بچی عاصمہ کو مبینہ طور پر زیادتی کے بعد قتل کر کے لاش کھیتوں میں پھینک دی گئی۔
عاصمہ کا قاتل بھی تاحال پولیس کی گرفت میں نہیں آسکا۔