امتدادِ زمانہ اور تغیر کے زیر اثر جہاں ہندوستانی سماج متاثر ہوا، وہیں برصغیر میں فنِ موسیقی اور گائیکی بھی نئی ترنگ، طرز اور ایجاد سے آشنا ہوئی۔ قدیم ساز اور طرزِ گائیکی مٹتا گیا جس کی جگہ موسیقی انداز اور ساز و آلات نے لے لی۔ کلاسیکی موسیقی اور راگ راگنیوں کے سننے اور سمجھنے والے بھی نہ رہے اور ان گھرانوں کی شہرت بھی ماند پڑ گئی جو اس فن کے لیے ہندوستان بھر میں جانے جاتے تھے۔ یہ تذکرہ استاد ذاکر علی خان کا ہے جو شام چوراسی گھرانے کے مشہور گلوکار تھے۔ آج استاد ذاکر علی خان کی برسی ہے۔
استاد ذاکر علی خان 1945ء میں ضلع جالندھر کے مشہور قصبے شام چوراسی میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ استاد نزاکت علی خان، سلامت علی خان کے چھوٹے بھائی تھے۔ ذاکر علی خان اپنے بڑے بھائی اختر علی خان کی سنگت میں گاتے تھے۔ 1958ء میں جب وہ 13 برس کے تھے تو پہلی مرتبہ ریڈیو پاکستان ملتان پر گائیکی کا مظاہرہ کیا۔ بعدازاں انھیں آل پاکستان میوزک کانفرنس میں مدعو کیا جاتا رہا۔
پاکستان میں انھوں نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے پرفارم اور متعدد میوزک کانفرنسوں اور اہم تقریبات میں مدعو کیے جاتے رہے۔ استاد ذاکر علی خان کو بیرونِ ملک بھی کئی مرتبہ اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا تھا۔ خصوصاً 1965ء میں کلکتہ میں ہونے والی آل انڈیا میوزک کانفرنس میں ان کی پرفارمنس کو یادگار کہا جاتا ہے۔ اس شان دار پرفارمنس پر انھیں ٹائیگر آف بنگال کا خطاب دیا گیا تھا۔ استاد ذاکر علی خان نے ایک کتاب نو رنگِ موسیقی بھی لکھی تھی۔
کلاسیکی گلوکار استاد ذاکر علی خان 6 جون 2003ء کو انتقال کرگئے تھے۔ وہ لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔