یہ تذکرہ ہے آزادیٔ صحافت کے علم بردار اور پاکستان میں اس شعبہ کی ایک بے مثال اور قابلِ تقلید شخصیت کا جنھیں ضمیر نیازی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ پاکستان میں اعلیٰ صحافتی اقدار اور روایات کو پروان چڑھانے والے ضمیر نیازی نے ملک میں بخلاف صحافت حکومتی اقدامات، جبر اور پابندی کو للکارا۔ انھوں نے دور آمریت میں من چاہے قوانین کا نفاذ اور حکمت عملی کے خلاف آواز بلند کی اور قلم سے صحافت کا دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ احتجاجی تحریکوں میں بھی آگے نظر آئے۔
وہ پاکستانی میڈیا کی تاریخ لکھنے والے پہلے صحافی تھے۔ انھوں نے نہ صرف پاکستانی صحافت کی تاریخ مرتّب کی بلکہ اس موضوع پر متعدد کتابیں بھی لکھیں جو اس شعبے کو اپنانے والوں کی راہ نمائی کرتی ہیں۔
ضمیر نیازی 1927ء میں بمبئی میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام ابراہیم جان محمد درویش تھا۔ آبائی پیشہ تو تجارت تھا لیکن ضمیر نیازی نے جس دور میں آنکھ کھولی تھی، وہ ہندوستان میں آزادی کی تحریکوں کا دور تھا اور صحافت بھی آزادی کی جنگ میں اپنا کردار ادا کررہی تھی۔ ممتاز ترقّی پسند ادیب، خلیق ابراہیم خلیقؔ نے اپنی خود نوشت ’’ منزلیں گرد کی مانند‘‘ میں لکھا ہے: ’’بمبئی میں میرے قیام کے دوران ضمیر نیازی تین محاذوں پر سرگرمِ عمل تھے۔ طالبِ علموں کا محاذ، ادب اور صحافت کے محاذ۔‘‘
ضمیر نیازی نے اپنے ارد گرد نہ صرف علمی و ادبی ماحول دیکھا بلکہ حکومت سے بغاوت اور آزادی کے ترانے اور تقریریں بھی سنتے ہوئے بڑے ہوئے جس نے ان کے اندر بھی جبر و استحصال کے خلاف ڈٹ جانے اور اپنے حق کی خاطر لڑنے کا جذبہ پیدا کر دیا۔ وہ پہلے ادب پڑھنے اور لکھنے کی جانب مائل ہوئے اور پھر صحافت کی طرف قدم بڑھا دیے۔ اس وقت بمبئی سے کئی اخبار و رسائل شایع ہوا کرتے تھے جن میں روزنامہ’’ اجمل‘‘ بھی شامل تھا۔ نوعمری سے ابراہیم درویش اس کا مطالعہ کرتے رہے تھے اور پھر اسی اخبار میں کام کرنے کا موقع مل گیا۔ یوں ان کی صحافت کا آغاز متحدہ ہندوستان میں ہوگیا تھا۔ تقسیم کے بعد چند سال بھارت میں رہنے والے ابراہیم درویش ہجرت کر کے کراچی آگئے اور یہاں بھی صحافت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔
کوچۂ صحافت میں ان کے سامنے ایک واضح مقصد اور راستہ تھا۔ وہ ریاست اور حکومت کو اُن کے فرائض یاد دلاتے ہوئے غلط پالیسیوں اور اقدامات پر تنقید کرنا اور عوام کے حق میں آواز اٹھانا اپنی اوّلین ذمہ داری سمجھتے تھے۔ وہ ایسے صحافی تھے جنھوں نے نہ صرف احتجاجاً حکومت کو تمغا برائے حسنِ کارکردگی واپس کیا بلکہ ایک موقع پر ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری وصول کرنے کے لیے گورنر ہاؤس جانے سے انکار کر دیا اور ہمیشہ مراعات اور حکومتی وظائف کو اپنے اور اپنے مقصد کے لیے ہلاکت قرار دیا۔ ضمیر نیازی ڈان اور بزنس ریکارڈر سے منسلک رہنے کے بعد عملی صحافت سے کنارہ کش ہوئے اور پھر تحقیقی کاموں اور تصنیف و تالیف میں مصروف ہوگئے۔ انھوں نے اردو صحافت سے آغاز کیا تھا مگر پھر انگریزی اخبار سے جڑ گئے تھے۔ دن اور شام کے متعدد اخبارات سے ضمیر نیازی مختلف حیثیوں سے وابستہ رہے اور اپنے بے باکانہ انداز اور بے لاگ تبصروں اور اداریوں سے صحافت کا حق ادا کیا۔
ضمیر نیازی کی پہلی کتاب ’’The Press in Chains-1986‘‘ تھی جس کا بعد میں اردو ترجمہ اجمل کمال نے کیا۔ اس میں ضمیر نیازی نے اخبارات کے بارے میں اپنے بے مثل تحقیقی متن کو معروضی انداز میں قلم بند کیا۔ ان کی دوسری کتاب ’’The Press under Siege-1992‘‘ اور اس کے بعد ’’The Web of Censorship-1994‘‘ سامنے آئی۔ ان کے انگریزی مضامین کا اردو ترجمہ بھی کتابی شکل میں شایع ہوچکا ہے۔ 2005ء میں ضمیر نیازی کی آخری کتاب ’’Fettered Freedom‘‘ شایع ہوئی جس میں اُن کے اٹھارہ مضامین شامل تھے۔