بلند فکر اور تخلیقی اپچ رکھنے والے ضیا سرحدی کا نام فلم کی دنیا میں ایک عظیم ہدایت کار اور کہانی و مکالمہ نویس کے طور پر لیا جاتا ہے جو مارکسی نظریات سے متاثر تھے اور انہی نظریات کے زیرِ اثر ان کی کئی فلمیں شاہ کار ثابت ہوئیں۔ ضیا سرحدی نے اپنے سماج کے مختلف چہروں اور طبقاتی تضاد کو بڑے پردے پر پیش کیا۔
ضیا سرحدی کو بچپن ہی میں فلموں کا شوق پیدا ہوگیا تھا جو نوعمری میں ان کا عشق بن گیا اور جب وہ مارکسی فلسفے سے آشنا ہوئے تو زندگی کو الگ ہی انداز سے دیکھنے لگے۔ تب لگ بھگ 20 سال کی عمر میں انھوں نے پشاور سے بنگال کا سفر کیا اور وہاں جاکر ہدایت کار، اسکرپٹ رائٹر اور اداکار کے طور پر قسمت آزمائی۔ بعد میں بمبئی فلم انڈسٹری میں کام کیا اور اپنے فن کی بنیاد پر نام و مقام بنایا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب تھیٹر کے بعد سنیما کا بڑا زور تھا اور متحرک فلموں نے شائقین کو اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔
ضیا سرحدی کا نام لیا جائے تو تقسیم سے قبل ان کی فلم ’’ہم لوگ‘‘ یاد آ جاتی ہے جس کا مشہور مکالمہ تھا، ’’جس دیے میں تیل نہ ہو اسے جلنے کا کیا ادھیکار (حق) ہے پارو۔‘‘ یہ فلم 1951ء میں ہندوستان میں ریلیز ہوئی تھی اور پاکستان میں بھی اس کی نمائش کی گئی۔ بعد میں ’’فٹ پاتھ‘‘ جیسی لاجواب فلم بنائی جس میں مینا کماری اور دلیپ کمار نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔
27 جنوری 1997ء کو پاکستان کے ممتاز فلم ساز اور ہدایت کار ضیا سرحدی انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ ان کا تعلق پشاور سے تھا جہاں انھوں نے 1912ء میں آنکھ کھولی۔ خاندانی نام فضل قادر سیٹھی تھا اور بعد میں ضیا سرحدی کے نام سے مشہور ہوئے۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف اداکار خیّام سرحدی ان کے فرزند اور مشہور موسیقار رفیق غزنوی ضیا صاحب کے داماد تھے۔
1933ء میں ضیا سرحدی گریجویشن کرنے کے بعد بمبئی چلے گئے۔ وہاں اپنے وقت کے عظیم ہدایت کار محبوب کے ساتھ کہانی نگار کی حیثیت سے کام شروع کا آغاز کیا۔ اس زمانے میں انھوں نے "دکن کوئن، من موہن، جاگیردار، مدھر ملن، پوسٹ مین جیسی فلمیں کے لیے ہدایت کاری اور اسکرپٹ رائٹنگ کی۔ 1958ء میں وہ پاکستان آگئے جہاں ان کی آخری فلم ’’راہگزر‘‘ تھی اور جب یہ فلم مکمل ہوئی تو ایوب خان کا مارشل لاء نافذ ہو گیا۔ اس کے بعد سنسر کی قینچی چلی جس نے ضیا سرحدی کو بھی گویا ادھیڑ کر رکھ دیا۔ پاکستان میں ان کی باقی فلموں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ وہ ایک نظریاتی اور سچے تخلیق کار تھے اور اس کے بعد بہت دلبرداشتہ ہوگئے تھے۔ تاہم 1966ء میں ضیا سرحدی نے رضا میر کی فلم ’’لاکھوں میں ایک‘‘ کے مکالمے لکھ کر خوب شہرت پائی۔ یہ پاکستان کی عظیم ترین فلموں میں سے ایک ہے اور آج بھی اس کا حوالہ دیا جاتا ہے۔
انھوں نے فلم غنڈہ، اور نیا سورج کی کہانی بھی لکھی تھی، لیکن یہ مکمل نہ ہوسکیں۔ انھوں نے جن فلموں کی ہدایات دیں ان میں ’’بھولے بھالے، مدھر ملن، نادان، یتیم، اور آواز‘‘ قابل ذکر ہیں۔ اسکرین رائٹر کی حیثیت سے ان کی معروف فلموں میں ’’من موہن، جاگیردار، سیوا سماج، انوکھی ادا اور فٹ پاتھ‘‘ شامل ہیں جب کہ مکالمہ نگاری کے حوالے سے ’’جاگیر دار، گرامو فون، سنگر، جیون ساتھی اور بیجو باورا‘‘ کا تذکرہ ضرور ہوگا۔
جنرل ضیاء الحق کا دور ہدایت کار ضیا سرحدی کے لیے بھاری ثابت ہوا۔ ان پر غداری کا الزام لگا اور گرفتاری کے بعد قید ہوگئی۔ اس کے بعد وہ برطانیہ چلے گئے۔ بعد میں اسپین منتقل ہوگئے تھے جہاں دمِ آخر تک ان کا قیام رہا۔
ضیا سرحدی پشاور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔