اشتہار

ظ انصاری: اردو ادب کی ایک ہمہ جہت شخصیت

اشتہار

حیرت انگیز

ظ انصاری نے اردو زبان و ادب کو کئی علمی و تحقیقی مضامین اور تخلیق و تراجم پر مشتمل یادگار کتابیں دیں۔ وہ ایک ادیب، محقّق، ادبی نقّاد اور بہترین مترجم تھے جنھیں صاحبِ اسلوب قلم کار اور اردو ادب میں فکر و دانش کی روایت کا امین کہا جاسکتا ہے۔

آج ظ انصاری کا یومِ وفات ہے۔ وہ عربی، فارسی اور انگریزی کے علاوہ روسی زبان بھی جانتے تھے۔ اور ان زبانوں‌ سے کئی تراجم کے علاوہ اور اردو زبان و ادب اپنے علمی و تحقیقی مضامین سے مالا مال کیا۔ اردو روسی لغت مرتب کی۔ ماسکو میں قیام کے دوران انھوں نے بلاشبہ نہایت معیاری کام کیا۔ وہاں وہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لائق سمجھے گئے۔ بعد میں ظ انصاری نے بمبئی یونیورسٹی میں روسی زبان بھی پڑھائی۔

31 جنوری 1991ء کو ظ انصاری نے ممبئی میں وفات پائی۔ ان کا مکمل نام ظلِّ حسنین نقوی تھا۔ ادب کی دنیا میں‌ انھیں‌ اختصارِ نام کے ساتھ شہرت ملی اور ظ انصاری نے اپنے حصّہ کا کام بخوبی کیا، ان کا وطن سہارن پور تھا جہاں 6 فروری 1925ء کو پیدا ہوئے۔

- Advertisement -

ظ انصاری حصولِ تعلیم کے بعد دہلی آئے اور وہاں ایک روزنامے سے منسلک ہوئے۔ اس زمانے کے ایک ہفتہ وار اخبار کے مدیر سید سبطِ حسن تھے، یہ کمیونسٹ پارٹی کا اخبار تھا۔ ظ انصاری اس کی مجلسِ ادارت میں شامل ہوگئے۔ اس دور میں ترقی پسند نظریہ اور فکر کے پرچارک لکھاریوں کو گرفتار کرکے پابندِ سلاسل کیا جارہا تھا اور ظ انصاری بھی گرفتار بھی ہوئے۔ وہ کمیونزم کے نظری پیرو کار تھے، لیکن بعد میں مایوس ہوگئے۔ اس وقت آزادیٔ وطن کی بھی ہر طرف گونج سنائی دے رہی تھی جس میں کمیونسٹ پارٹی کا بھی خاصا دخل تھا۔ ظ انصاری گرفتار ہوئے تو حالت کچھ ایسی نہ تھی کہ جیل جائیں تو ان کے بال بچّوں کا سلسلۂ معاش جاری رہ سکے۔ اس لیے انھوں‌ نے گورنمنٹ سے مصالحت کے بعد جیل سے رہائی حاصل کر لی تھی اور پھر صرف صحافت اور ادبی مشاغل تک محدود ہوگئے۔ شاعری بھی ظ انصاری کا ایک حوالہ ہے۔

ظ انصاری نے جہاں روزناموں اور مختلف رسائل سے منسلک رہتے ہوئے تخلیق و تراجم کا کام انجام دیا وہیں بالخصوص روس کے دارالترجمہ میں کام کرتے ہوئے ظ انصاری کے قلم سے روسی ادیبوں کی کہانیوں اور ناولوں کے خوب عمدہ تراجم سامنے آئے۔ ظ انصاری نے مولانا آزاد، غالب، میر، خسرو، اقبال اور انیس پر بھی اپنا تحقیقی کام پیش کیا۔

ظ انصاری نے علمی و تحقیقی کاموں کے دوران کارل مارکس، اینجلس کی منتخب تصانیف بھی اردو میں منتقل کیں۔ اس کے علاوہ دستووسکی، چیخوف، اور پشکن کے ناولوں کا ترجمہ اور جدید روسی شاعری کو بھی اردو میں منظوم کیا۔ ان کی متعدد تصانیف میں سے اہم اور چند قابلِ ذکر نام ’’مثنوی کا سفر نامہ‘‘، ’’کانٹوں کی زبان‘‘، ’’کہی ان کہی‘‘، ’’کتاب شناسی‘‘، ’’اقبال کی تلاش‘‘، ’’غالب شناسی‘‘، ’’کمیونزم اور مذہب‘‘، ’’ورق ورق‘‘ ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں