سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ملک بھر میں عمران خان کی گرفتاری کے خلاف کارکنوں میں پایا جانے والا غم و غصّہ کم اور احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ ختم ہوتا نظر آرہا ہے، جس کی آڑ میں شدید ہنگامہ آرائی کی گئی اور پُرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔ دنیا بھر میں ان واقعات کو میڈیا نے کور کیا اور اب نیب کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری کو سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دے کر انھیں پولیس لائنز میں رکھنے کا حکم جاری کیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ردعمل سامنے آیا جس میں مشتعل افراد کی جانب سے قومی اداروں اور املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور اس کی خبریں صرف پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں میڈیا کی زینت بنیں۔ اس سے دیارِ غیر میں جہاں پہلے ہی پاکستان کا امیج اچھا نہیں بن رہا تھا، وہ مزید خراب ہوا۔
عمران خان کو نیب کی جانب سے بنائے گئے القادر ٹرسٹ کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے بعد پی ٹی آئی کی صف اول قیادت جن میں شاہ محمود قریشی، اسد عمر، فواد چوہدری ودیگر شامل ہیں انہیں بھی گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پی ٹی آئی کے حامی سمجھے جانے والے صحافیوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے اور عمران ریاض خان اور آفتاب اقبال کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔
عمران خان کی گرفتاری اور گرفتاری کے طریقہ کار پر کچھ لوگوں یا طبقے کو تحفظات اور اعتراضات ہوسکتے ہیں لیکن اس کے بعد جس طرح کا ردعمل پورے ملک میں دیکھنے میں آیا اس نے ہر سنجیدہ اور باشعور پاکستانی کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔ یہ درست ہے کہ اپنے حق کے لیے احتجاج کرنا کسی بھی جمہوری معاشرے میں ہر شخص کا بنیادی حق ہے لیکن اس کی آڑ میں اگر بے قصور کو جانی و مالی نقصان پہنچایا جائے، قومی اداروں اور ان کی املاک کو نقصان پہنچایا جائے اور صورتحال ایسی بنا دی جائے جس سے لگے کہ پورے ملک میں آگ لگ گئی ہو تو پھر یہ احتجاج نہیں انتشار پھیلانا ہوتا ہے اور کوئی مہذب معاشرہ اور امن پسند شہری اس کی حمایت نہیں کر سکتا۔
سابق وزیراعظم کی گرفتاری کے فوری بعد جس طرح حساس ادارے کے دفتر اور کور کمانڈر لاہور کی رہائشگاہ پر حملے کیے گئے وہ انتہائی شرمناک ہیں۔ فوج کسی بھی ملک کے لیے انتہائی ضروری اور آخری دفاعی لائن ہوتی ہے۔ اختلاف رائے ہر معاشرے میں ہوتا ہے اور اختلاف کا ہونا ہی جمہوریت کا حسن ہے، لیکن چند افراد سے اختلاف پر پورے ادارے سے نفرت پر مبنی رویے کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ایسی سوچ کا پنپنا خواہ کسی بھی طبقے اور حلقے کی جانب سے ہو وہ کسی طور پر قومی مفاد قرار نہیں دی جاسکتی۔
احتجاج کی آڑ میں توڑ پھوڑ اور قومی املاک کو نقصان پہنچانے کا عمل صرف کسی ایک ادارے یا شہر اور صوبے تک محدود نہیں رہا بلکہ پورے ملک میں پھیلا اور ایسا پھیلا کہ ملک کے بڑے حصے میں نظام زندگی کو مفلوج کرگیا۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک گیر احتجاج کی آڑ میں مختلف شہروں میں جلاؤ گھیراؤ کیا گیا، پرتشدد کارروائیاں کی گئیں۔ پشاور میں ریڈیو پاکستان کی 5 منزلہ عمارت کو جلا دیا گیا، خواتین ملازمین تک پر تشدد کیا گیا اور ایک ایمبولینس تک نذر آتش کردی گئی۔ الیکشن کمیشن آفس سمیت ملک کے مختلف شہروں میں کئی پولیس تھانوں، موبائلوں سمیت پبلک ٹرانسپورٹ کو نذر آتش کرکے عام عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا گیا۔
اس خونیں احتجاج میں دو روز کے دوران حکومتی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق 10 سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں جب کہ زخمیوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے جن میں 150 سے زائد پولیس افسران و اہلکار شامل ہیں۔ اگر کسی کے نقطۂ نظر کے مطابق عمران خان کی گرفتاری زیادتی ہے تو کیا اس کے ردعمل میں بے قصور عوام اور سرکاری افسران واہلکاروں پر ہونے والا یہ ظلم انصاف پر مبنی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ انصاف کا نعرہ لگانے والوں کو سوچنا ہوگا کیونکہ جو لوگ بھی شرپسندوں کے غیظ وغصب کا نشانہ بن کر زندگی کی بازی ہارے یا زخمی ہوئے ان کا عمران خان کی گرفتاری سے کوئی لینا دینا یا ذمے داری عائد نہیں ہوتی۔ صورتحال اتنی خراب ہوئی کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت پنجاب، کے پی اور بلوچستان میں فوج کو طلب کرلیا گیا۔ بہرحال ہنگامہ آرائی کے واقعات کے بعد ریاست حرکت میں آئی ہے اور اب تک ہزاروں افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور حکام کے مطابق ان کی سی سی ٹی وی اور موبائل فوٹیجز کے ذریعے نشاندہی ہوئی ہے۔
ملک میں افراتفری کے بعد انٹرنیٹ مکمل یا جزوی طور پر بند کر دیا گیا اور اس کے نتیجے میں جہاں عوام کے لیے خبروں تک رسائی مشکل بنی اور افواہوں کا بازار گرم ہوا وہیں ٹیلی کام سیکٹر اور حکومتی خزانے کو بھاری مالی نقصان ہوا ہے۔
اس تمام صورتحال پر پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ قومی اداروں اور ان کی املاک کو نقصان پہنچانے والے شرپسندوں کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے تاہم صرف یہ بیان کافی نہیں ہوگا کیونکہ اسی دوران ایسی آڈیو بھی سامنے آئی ہیں جن میں مبینہ طور پر پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے املاک پر حملے کی بات کی جا رہی ہے۔
اس وقت جب ملک جل رہا ہے تو کچھ حلقوں کی جانب سےاس آگ کو ہوا دینے جیسے بیانات سامنے آ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ تاہم یہ وقت ہے کہ طرفین جوش کے بجائے ہوش سے کام لیں اور کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کیا جائے جس سے ملک کی فضا مزید مکدر ہو اور انارکی بڑھے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھی جائے کہ عوام کو زبان مل جائے تو پھر کسی کے لیے غلطی کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ یہ وقت احتیاط اور صبر کے ساتھ دور اندیشی سے فیصلے کرنے کا ہے۔