اردو ادب کے عظیم شاعر ساغر صدیقی کو دنیا سے رخصت ہوئے چالیس برس بیت گئے لیکن ان کا کلام آج بھی زندہ ہے۔
بُھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے
منزل نہیں ہوں ، خضر نہیں ، راہزن نہیں
منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے
اردوزبان کو لطافت بخشنے والے عظیم شاعر ساغر صدیقی کو اہل ذوق آج ان کی رحلت کے چالیس سال بعد بھی یاد کررہے ہیں ۔ ساغر صدیقی انیس سو اٹھائیس کو بھارت کے شہر انبالہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد اختر تھا اورآپ چودہ برس کی عمر میں ہی شعر کہنے لگے تھے، ابتدا میں ’ناصر حجازی‘کے تخلص سے غزلیں کہیں بعد ازاں ’ساغر صدیقی‘ کے نام سے خود کو منوایا۔
ساغر بقدرِ ظرف لٹاتا ہوں نقد ِ ہوش
ساقی سے میں ادھار کا قائل نہیں ہوں دوست
قیام پاکستان کے بعد ساغر صدیقی امرتسر سے لاہور منتقل ہوگئے پھر یہیں کے ہورہے۔ وہ ایک درویش صفت شاعر تھے۔عشق مجازی عشق حقیقی ،جدوجہد، لگن اور آوارگی ساغر صدیقی کی شاعری کا موضوع بنے۔
انیس جولائی انیس سو چوہتر کو ساغر اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے ، ساغر صدیقی میانی صاحب قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں ہر سال آپکے مزار پر عرس کا انعقاد ہوتا ہے۔
محفلیں لُٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا
ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا