ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے’
‘کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِبیاں اور
جب سخن کا صفحہ کھلتا ہے تومرزا غالب کےوجود اور تذکرے کے بغیراُردو شاعری پھیکی پھیکی سی لگتی ہے، آج اُسی سخنور غالب کی دو سو سولہویں سالگرہ ہے۔ مرزا غالب برِصغیر کی شعروادب کی دنیا میں ایک نامور مقام رکھتے تھے۔ وہ کسی ایک عہد کے نہیں بلکہ ہر عہد اور ہر زمانے کے شاعر ہیں۔اُنکی طرزِادا میں جدت اوربانکپن ہے۔ اُردو زبان جس شاعر پہ بجا طور سے ناز کرسکتی ہے اور جسکو دنیا کے بہترین شعراء کی صف میں کھڑا کر سکتی وہ مرزا اسد اللہ خان غالب ہیں۔جنھوں نے شاعری کو تازہ زندگی بخشی، اُنکا تخلص ’اسد‘ تھا۔
مرزا غالب ۲۷ دسبمر ۱۷۹۷ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ ۵ برس کے تھے کہ انُکے والد عبداللہ خان ریاست الور میں مارے گئےغالب نے آگرہ میں تعلیم پائی،نواب الٰحی بخش خان معروف کی صاحبزادی امراؤ بیگم سے شادی ہوئی۔ غالب آگرہ چھوڑ کر دہلی آگئے،پھروہیں قیام پذیر رہے۔
یہ نہ تھی ہماری قسمت کے وصالِ یار ہوتا’
‘اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
مرزا فارسی کے اعلٰی پایہ ادیب اور شاعر تھے۔ اُردو میں اُنکی غزلوں کا دیوان اگرچہ مختصرہے لیکن اُردو کے نقاد اس کو سرآنکھوں پررکھتے ہیں۔ انھوں نے گیارہ برس کی عمر میں غزل کہنا شروع کی، زیادہ ترتوجہ فارسی کی طرف رہی۔ مرزا کو ہمیشہ فارسی پہ فخررہا مگر آپکی پہچان اُردو زبان کی شاعری بنی۔
غالب انسانی فطرت کے نباض تھے اور نفسیاتی حقائق کا گہرا ادراک رکھتےتھے۔ انھیں مسائل تصوف خصوصاً فلسفہ وحدت الوجود سے گہری دلچسپی تھی۔ مرزا نے مالی پریشانیاں بھی دیکھیں۔ قیامِ دہلی کے دوران اُنہیں خاندانی پنشن کا مقدمہ درپیش رہا جو بالآخر مرزا ہارگئے۔ تاہم خوداری کا یہ عالم تھا کہ دہلی کالج میں حصول ملازمت کیلئےگئے اور باہر یہ سوچ کر انتظار کرتے رہے کہ کالج کے سرپرست جیمز ٹامسن استقبال کے لئے آئے گے مگر وہ نہ آئے اور مرزا لوٹ آئے۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے’
‘بہت نکلے میرے ارماں، لیکن پھر بھی کم نکلے
جنگِ آزادی کے ہنگاموں کے بعد والی رامپور کے وظیفے پر اکتفاکرنا پڑا۔ آخری عمر میں صحت بہت خراب ہوگئی تھی۔ آخرکار دماغ پرفالج کا حملہ ہوا اور مرزا ۱۵ فروری ۱۸۶۹ء کو خالقِ حقیقی سےجاملے،اور ایک عظیم شاعر ہم سے بچھڑگیا۔
ہوئی مدت کے غالب مرگیا پر یاد آتا ہے’
‘وہ ہر ایک بات پہ کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
(راؤ محسن علی خان)