کراچی (ویب ڈیسک) – سابق صدر جنرل پرویز مشرف کاکہناہےکہ ملک کے تمام مسائل کا حل ایک طاقتور نگران حکومت ہے وہ اے آر وائی نیوز کے پروگرام سیاست اور سازش میں خصوصی گفتگو کررہے تھے۔
سابق صدر خصوصی عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد پہلی بار کسی ٹی وہ چینل کو دئیے گئےخصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ای سی ایل سے نام نکالنا حکومت اورعدالت کام ہے وہ ای سی ایل سے نام نکلوانے کے لئے باربارالتجا نہیں کریں گے ہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ ایک آزاد زندگی گزارنا چاہتے ہیں کہ جب چاہے جہاں چاہے جائیں اور جب چاہے وطن واپس آئیں۔
پرویز مشرف اےآر وائی نیوز کے پروگرام سیاست اورسازش میں ڈاکٹر معید پیرزادہ اور فواد چوہدری کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے ملکی تاریخ کی بہت سی سیاسی گھتیاں سلجھائیں۔
ڈاکٹرمعید پیرزادہ کی جانب سے کئے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئےان کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز، سابق وزیر قانون زاہد حامد اور سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے ہمراہ جنرل کیانی کو بھی 03 نومبر غداری کے مقدمےمیں شامل کیا جانا چاہئیے۔
فواد چوہدری نے جب ان اشخاص کے بارے میں سوال کیا کہ جو مشرف دور میں ان کے ساتھ تھے اورجن میں سے بہت سوں کا سیایسی کیرئر سابق صدر کے باعث شروع ہوا وہ اب نواز شریف کی کابینہ کا حصہ ہیں۔ جواب میں سابق صدر کا کہنا تھا کہ لوگوں کواپنا کردار بلندکرناچاہئیے یہ لوٹا کریسی اب نہیں چلتی انہوں نے وفاداریاں تبدیل کرنے والے کے لئے اپنے غصے کا اظہار بھی کیا
فوا چوہدری نے جب ان پر مقدمات کے حوالے سے ان کے ادارےکی سپورٹ کے فقدان کے حوالے سے سوال کیا تو انہوں نےپہلے تو ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس پرکوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے لیکن بعد میں انہوں نےکہا کہ پہلےاس طرح کے معاملات تھے لیکن اب نہیں ہیں۔
اکبر بگٹی کے قتل سے متعلق مقدمےکی بابت ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک لاحاصل مقدمہ ہے اکبر بگٹی کی ہلاکت غار میں دھماکے سبب ہوئی جس میں پاک فوج کے چار افسر بھی شہید ہوئےتھے اور دھماکہ یا تو خودکش تھا یا غار کے اندر اکبر بگٹی یا انکے آدمیوں کی جانب سے کیا گیا تھا کیونکہ فوج کے افسران راکٹ لانچر یا دھماکہ خیز مواد کے کر نہیں براہ راست کاروائی نہیں کرتے بلکہ یہ سپاہیوں کا کام ہے۔
ڈاکٹر معید پیرزادہ نے جب بگٹی کی لاش کی حوالگی سے متعلق سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ انکی میت ان کےآبائی گاؤں لے جائی گئی تھی اور وہیں تدفین ہوئی ہے۔
انہوں نے بلوچستان کی صورتحال پر گفتگو کو وسیع کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں بد امنی میں عالمیں طاقتیں ملوث ہیں سوویت یونین اور بھارت سازشوں میں مشغول ہیں۔
ڈاکٹر معید پیرزادہ نے جب بلوچستان میں مسلم لیگ ق کی کارکردگی کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے جوشیلے لہجے میں جواب دیا کہ بلوچستان میں ہماری کارکردگی بہترین تھی وہاں 67 فراری کیمپ تھے اور %95 فیصد بلوچستان’بی‘ایریا تھا جہاں حکومت کی رٹ ہی نہیں تھی ، ان کا کہنا تھا کہ ہم نے فراری کیمپ ختم کئے اور بلوچستان میں حکومتی عملداری قائم کی
اس موقع پر فواد چوہدری نے سوال کیا کہ فوجی آپریشن کے بعد سیاسی عمل کیوں نہیں شروع کیا جاتا جسکے جواب میں پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ آپریشن کے بعد بلوچستان میں دو مرتبہ بلدیات، صوبائی اور قومی اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوئے ہیں انفرا اسٹرکچر پرتوجہ دی جارہی ہے تعلیم کو عام کیا جارہا ہے اورعلیحدگی پسندوں کو ماراجارہاہے۔
لاپتہ افرادسے متعلق ان کا کہنا تھا کہ وہاں جنگ جاری ہے ایف سی کی چوکیوں پرحملے ہوتے ہیں اورحملہ آور جانتے ہیں کہ حکومت انکا پیچھا کرے گی اسی لئے بیشترپہاڑوں میں روپوش ہوگئے ہیں یا مارےگئے ہیں اس لئے یہ سوال بے معنی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کاکہنا تھا کہ افغانستان سے ملحق معاملات کی اپنی ایک تاریخ ہے پہلے جہاد لانچ کیا گیا اور جب سوویت یونین چلا گیا تو انہیں ان کے حال پر چھوڑدیا گیا پھر طالبان آگئے اوران کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادی صورتحال یہ ہے کہ بھارت اور روس افغانستان کو پاکستان مخالف ملک بنانا چاہتے ہیں تو ایسی صورت میں پاکستان کی ہمنواء سوچ کو افغانستان میں فروغ دینا ہمارا حق ہے۔
انہوں اسامہ کی حمایت سے انکار کیا اورکہا کہ ہم نے اسے نہیں چھپایا اور اس کا یہاں سے برآمد ہونا یقیناً غفلت ہے۔ انہوں اس بات سے انکار کیا کہ کوئی آرمی آفیشل ان کے علم میں لائے بغیر اسامہ کو یہاں چھپا کر رکھے ہوئے تھا۔
این آر او کے بارے میں پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ یہ ان کا اپنا فیصلہ تھا اور اس میں کسی قسم کا عالمی دباؤ نہیں تھا ، انہوں نے کہا کہ این آر او بینظیر سے کیا تھا اور اس کے بعدنواز شریف بھی آگئے۔
کالا باغ ڈیم کے موضوع پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھاکہ اس کے لئے رائے عامہ ہموار کرنا ہوگی اگر اسی وقت کرتے تو سندھ میں بغاوت ہوجاتی۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ ملک میں تیسری سیاسی قوت بننا چاہتے تھے لیکن انہیں الیکشن نہیں لڑ نےدیا گیا ۔ عمران خان کے احتجاج سے متعلق سوال پر انکا کہنا تھا کہ افر وہ سولو فلائٹ کریں گے تو ملک کی تیسری سیاسی قوت نہیں بن سکتے انہیں دیگر قوتوں کو ساتھ ملانا ہو گا۔۔
ملک کے تمام مسائل کاحل انہوں نے ایک طاقتور نگراں حکومت کو قراردیا جو کہ ملک میں اصلاحات کرے اور ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کرے۔