جمعرات, نومبر 14, 2024
اشتہار

گولڈن جوبلی: سیاسی مفادات کی دوڑ میں آئینِ پاکستان تماشا بنا ہوا ہے!

اشتہار

حیرت انگیز

رواں ہفتے حکومتی نمائندے اور اراکینِ پارلیمنٹ آئینِ پاکستان کے 50 سال مکمل ہونے پر منعقد کی گئی گولڈن جوبلی تقریب میں شریک ہوئے۔ اس موقع پر پارلیمنٹ میں اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹرز نے پُرجوش انداز میں تقاریر بھی کیں جس میں آئین پاکستان کے تحفظ کے وعدے اور دعوے کیے گئے۔ لیکن اسی پارلیمنٹ میں اسی آئین کے ساتھ کھلواڑ بھی جاری تھا جو ان سیاست دانوں کے دہرے معیار کا ثبوت ہے۔

یوں تو قیام پاکستان کے 9 سال بعد 1956 میں ملک کو پہلا آئین ملا تھا لیکن اس کی عمر صرف دو سال ہی رہی۔ سیاسی بحران بڑھنے کے بعد بالآخر 7 اکتوبر 1958 کو اس وقت کے صدر اسکندر مرزا نے آئین کو منسوخ کر دیا اور ملک میں پہلے مارشل لا نے جنم لیا۔ جنرل ایوب خان پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوئے۔ اس کے بعد چار سال تک ملک بغیر کسی آئین کے چلتا رہا۔ 1962 میں اس وقت کے صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ایوب خان کی نگرانی میں بنایا مملکت کا دوسرا آئین یکم مارچ 1962 کو نافذ ہوا جس میں انتخابات فعال کیے گئے اور اسمبلی منعقد ہوئی۔ 8 جون کو راولپنڈی میں قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس ہوا جس میں مارشل لا کو حتمی شکل دی گئی۔ اس آئین کے تحت صدارتی نظام لایا گیا اور تمام اختیارات صدر کو حاصل تھے تاہم یہ صدارتی آئین بھی صرف 7 سال تک ہی چل سکا۔

ملک بھر میں احتجاج اور ہڑتالوں نے ایوب خان کو ان کے عہدے سے ہٹنے پر مجبور کر دیا تو انہوں نے اپنے سارے اختیارات جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر دیے۔ 25 مارچ 1969 کو پاکستان ایک بار پھر مارشل لا کے قدموں میں دبوچ لیا گیا۔ آئین سے بار بار روگردانی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے 1971 میں پاکستان کو دو لخت کردیا اور مشرقی پاکستان ایک نئے ملک بنگلہ دیش کے نام سے دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ اس صدمے نے پوری قوم کو مایوسیوں کے اندھیروں میں دھکیل دیا جس کو 1973 میں تیسری بار لیکن ایک متفقہ آئین دے کر دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی۔

- Advertisement -

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اپنے قیام کی تیسری دہائی میں دو لخت ہونے کے بعد پاکستان کی بکھری قوم کو 50 سال قبل 10 اپریل 1973 کے دن ملک کا پہلا متفقہ آئین ملا۔ اس آئین کی تشکیل میں تمام جمہوری سیاسی قوتوں نے اپنا اپنا کردار ادا کیا لیکن کریڈٹ بہرحال ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جاتا ہے کہ سقوط ڈھاکا کے بعد بکھری اور اضطراب میں مبتلا قوم کو ایک متفقہ آئین دے کر پھر سے اٹھانے اور دنیا کے نقشے پر ایک باوقار ملک بنانے کی کوشش کا آغاز کیا۔

اس آئین میں ملک کے ہر شہری کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی۔ انسانی حقوق کے ساتھ ہی ہر مکتب فکر کے معاشرتی، سماجی اور معاشی حقوق، اداروں کی حدود، پارلیمانی اختیارات سمیت ہر شعبۂ زندگی کا اس میں احاطہ کیا گیا اور ہر طبقہ فکر کی ترجمانی کی گئی۔ آئین نافذ ہوا لیکن نفاذ کے صرف چند سال بعد ضیا الحق نے اس آئین کو ردی کی ٹوکری میں ڈالتے ہوئے اقتدار پر قبضہ جمایا جو ان کی موت تک لگ بھگ 11 برس تک جاری رہا۔ اس کے بعد مشرف دور حکومت کے 9 سال بھی آئین کی پامالی میں گزرے۔

لیکن اگر آئین سے کھلواڑ کا نوحہ صرف آمرانہ دور حکومت تک محدود ہوتا تو شاید اچنبھے کی بات نہ ہوتی کہ آمروں کے لیے تو آئین ہمیشہ ایک کھلونا ہی رہا ہے، لیکن یہ خلاف ورزی آئین کی تشکیل سے لے کر اب تک ہر جمہوری دور میں کم یا زیادہ کی جاتی رہی ہے اور آئین کی محافظت کے دعوے دار ہی اس کے خلاف اقدامات کرتے رہے ہیں۔ یوں تو ہر جمہوری دور میں حکمرانوں نے آئین اور قانون کو گھر کی لونڈی سمجھا لیکن ہر طرف یہی آوازیں‌ اٹھ رہی ہیں‌ کہ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت میں آئین کی خلاف ورزیاں اور دستور کی شقوں سے جو چھیڑ چھاڑ کی جارہی ہے اس کی مثال سابق جمہوری ادوار میں نہیں ملتی۔

ملک کو متفقہ آئین دینے والے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اپوزیشن کی خلاف کارروائیاں، مقدمات، جیلیں آئین میں دیے گئے انسانی اور سیاسی حقوق کی خلاف ورزیاں ہی تھیں۔ پھر جب ضیا الحق کی آمریت کے بعد 11 سال جمہوریت کا چراغ ٹمٹاتا رہا اس میں بھی اس وقت کی دو بڑی جماعتیں (پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ) میوزیکل چیئر کی طرح اقتدار میں آتی اور جاتی رہیں تو انہوں نے بھی اقتدار کے حصول کے ساتھ ایک دوسرے کو سیاسی نقصان پہنچانے کے لیے آئین سے کھلواڑ جاری رکھا۔

1997 کا وہ دور تو سب کو یاد ہوگا جب نواز شریف نے دو تہائی اکثریت کے زعم میں 1973 کے آئین میں 15 ویں آئینی ترمیم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے تمام اختیارات اپنی ذات کے اندر سمونے کی کوشش کی۔ اسی دوران سپریم کورٹ پر ن لیگی اراکین پارلیمنٹ کے حملے نے پوری دنیا میں پاکستان کے جمہوری امیج کو بھی شدید نقصان پہنچایا تھا۔

آصف علی زرداری نے اپنے دور صدارت میں اٹھارویں ترمیم لا کر صوبوں کو بااختیار بنایا جو کچھ حلقوں کے نزدیک اب بھی متنازع ہے اور وہ اس پر اظہار خیال کرتے رہتے ہیں۔ یہ بحث الگ کہ اس کے کیا فوائد یا کیا نقصانات تھے۔ 1973 میں آئین کے نفاذ سے اب تک صرف دو بار جمہوری حکمرانوں نے آئین کو طاقت دی۔ ایک جب صدر کے اسمبلی توڑنے کے 58 ٹو بی کے اختیارات کو نواز شریف دور حکومت میں ختم کیا گیا کیونکہ اس آٹھویں آئینی ترمیم سے نواز شریف اور بینظیر بھٹو دونوں ہی نڈھال تھے اور اقتدار سے محرومی کا زخم کھا چکے تھے۔ دوسرا مرتبہ سابق صدر زرداری نے اپنے دور میں اٹھارویں ترمیم کر کے آئین کو طاقت ور ثابت کیا، لیکن اس کے بعد دیکھا جائے تو ہمیں 50 سالہ تاریخ میں کہیں بھی ایسی مثال نہیں ملتی جو آئین کے احترام اور عملدرآمد کے حوالے سے بہت زیادہ مثالی رہی ہو۔ بلکہ ہوتا یہ آیا ہے کہ ہر جمہوری حکمران نے بھی اپنے مفاد میں قانون اور آئین کو موم کی ناک سمجھا اور جہاں مفاد نظر آیا وہیں اس کو موڑ لیا یا اسی تناظر میں اس کی تشریح کر ڈالی اور کروا لی۔

2023 شروع ہوا تو 1973 کے آئین پاکستان کی وارث کہلانے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے پورا سال آئین کی گولڈن جوبلی کے طور پر منانے کا اعلان کیا اور یہ خوش آئند ہے کہ مہذب قومیں اپنے دستور کی پاسداری سے ہی پہچانی جاتی ہیں لیکن کیا ہی بہتر ہوتا کہ اس کا عملی مظاہرہ بھی کیا جاتا۔

پارلیمنٹ میں دستور پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریب میں وزیراعظم شہباز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری، وزیر خارجہ اور 1973 کے آئین کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے بلاول بھٹو زرداری نے جوش ولولے سے آئین کے تحفظ اور پاسداری کے عزم پر مبنی خوش کن تقاریر کیں لیکن اسی پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے ہاتھ پاؤں باندھنے کے لیے سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ پریکٹس بل منظور کر لیا جس کو آئینی ماہرین آئین سے متصادم قرار دے رہے ہیں۔ اس بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا چکا ہے جس کی ایک سماعت شروع ہوچکی ہے اور اگلی سماعت عیدکے بعد مقرر ہے۔ اس پر فیصلہ بھی آئین و قانون کی بالادستی کے حوالے سے راہ متعین کرے گا۔

اس وقت ملک میں سب سے بڑا مسئلہ سیاسی معاشی بحران کے ساتھ عدم برداشت ہے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ 90 کی دہائی سیاسی کھلاڑیوں کی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ پاکستان میں واپس لوٹ آئی ہے۔ اس وقت ملک کے دو صوبوں پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں تحلیل ہوئے لگ بھگ تین ماہ ہونے کو ہیں اور آئین پاکستان کے مطابق اسمبلیوں کی تحلیل کے 90 دن کے اندر الیکشن ہر حال میں ہونے ہیں اور اس سے کوئی فرار ممکن نہیں لیکن لگتا ہے کہ اس وقت پوری حکومتی مشینری اس آئینی حکم کی خلاف ورزی کرنے پر آمادہ ہے۔

حکومت اور الیکشن کمیشن نے پہلے معاشی ابتری اور امن و امان کی صورتحال کو وجہ بنایا۔ سپریم کورٹ نے یہ بات تسلیم نہیں کی اور ازخود نوٹس لیتے ہوئے 90 روز میں الیکشن کرانے کا حکم جاری کیا جس پر الیکشن کمیشن نے صدر مملکت سے مشاورت کے بعد 30 اپریل کو پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دی جب کہ گورنر کے پی تو تاریخ دینے کے کچھ دن بعد ہی مُکر گئے۔ پھر اچانک الیکشن کمیشن نے 30 اپریل کو شیڈول الیکشن منسوخ کرتے ہوئے نئی تاریخ 8 اکتوبر دی۔ پی ٹی آئی کے عدالت سے رجوع کرنے پر سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 14 مئی کو الیکشن کرانے کا حکم اور حکومت کو فنڈز اور سیکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آئین کے گولڈن جوبلی سال میں آئین کی پاسداری کرتے ہوئے حکومت اور ان کی اتحادی پی پی پی سر تسلیم خم کرتے اور الیکشن کمیشن کو 21 ارب کے مطلوبہ فنڈز جاری کیے جاتے لیکن اس کے برعکس حکومت نے بہانے بنائے۔ قومی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں نے فنڈز دینے سے انکار کرتے ہوئے بل مسترد کر دیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ حکومت اور اتحادیوں نے سپریم کورٹ کے پَر کاٹنے اور چیف جسٹس سے ازخود نوٹس کا اختیار چھیننے یا اس کی افادیت کم کرنے کے لیے ایک بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس کرایا اور منظوری کے لیے صدر مملکت کو بھیجا اور جب وہاں سے اعتراض لگ کر واپس آیا تو بجائے اس کے کہ ان اعتراضات کا قانونی طور پر جائزہ لیا جاتا اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے عجلت میں منظور کرا لیا جو 10 روز بعد ازخود قانون بن جائے گا۔

بہرحال، وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈز سے انکار کے بعد سپریم کورٹ نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو حکم دے دیا ہے کہ وہ پنجاب اور کے پی میں انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کو 21 ارب کے مطلوبہ فنڈز جاری کرے۔ اگر اس پر بھی سپریم کورٹ کے سابقہ احکامات کی طرح عملدرآمد نہیں ہوتا تو ملک میں جاری آئینی بحران کہیں زیادہ سنگین ہوسکتا ہے۔

Comments

اہم ترین

ریحان خان
ریحان خان
ریحان خان کو کوچہٌ صحافت میں 25 سال ہوچکے ہیں اور ا ن دنوں اے آر وائی نیوز سے وابستہ ہیں۔ملکی سیاست، معاشرتی مسائل اور اسپورٹس پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ قارئین اپنی رائے اور تجاویز کے لیے ای میل [email protected] پر بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔

مزید خبریں