اسلام آباد: سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے چارملزمان کی سزا کیخلاف درخواست سماعت کیلئے منظور کرلی۔
چیف جسٹس انورظہیرجمالی کی سربراہی میں لارجربنچ نے سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے 16 ملزمان کی اپیلوں کی سماعت کاآغازکردیا جوروزانہ کی بنیاد پرکی جائے گی۔
سزائے موت کے ملزم حیدر علی اور قاری ظاہر کی جانب سے عاصمہ جہانگیر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فوجی عدالتوں میں ملزمان کو شفاف ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا،انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتیں صرف طریقہ کارکی ہی خلاف ورزی نہیں ہو رہی بلکہ وہاں کینگرو ٹرائل ہورہا ہے۔
کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کاکہناتھا کہ ملزم حیدر علی کے بیان سے واضح ہے کہ اس نے پاکستان کے خلاف جنگ میں دہشت گردوں کا ساتھ دیا، ملزم نے مانا کہ وہ بم دھماکوں کے پلاننگ میں شریک کار رہا پھر کس اعترافی بیان کی بات کررہی ہیں عاصمہ جہانگیر نے موقف اختیارکیا کہ وہ یہ دعوی نہیں کرتیں کہ ملزمان نے کچھ کیا یا نہیں لیکن قانون کے مطابق شفاف ٹرائیل کاشک وشبہ سے بالاترثابت ہونا ملزمان کاحق ہے۔
عدالت نے ان کی اس دلیل کوتسلیم کرتے ہوئے درخواست سماعت کیلئے منظور کرلی جبکہ دیگردوملزمان جن میں سے ایک پرملٹری چیک پوسٹ پرفائرنگ اورایک شخص کوزخمی کرنے کاالزام ہے اوردوسرے ملزم کے اے پی ایس واقعے میں ملوث ہونے کاالزام ہے کے کیس کی سماعت کی چوکی پرفائرنگ کے حوالے سے ملزم کے وکیل کاکہناتھا کہ ملزم نے فائرنگ نہیں کی بلکہ انھیں گاڑی سے اتارکراغواکرنے کی کوشش کی گئی جس سے دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اورسرکاری اہلکار نے فائر کھول دیا جس میں ایک راہگیربھی زخمی ہوا۔
سرکاری اہلکارملزمان کواٹھا کرلے گئے جبکہ ان افرادکاپتہ اس وقت چلا جب ایک اخبارنے انھیں سزائے موت سنائے جانے کی خبرشائع ہوئی اس طرح جس ملزم پراے پی ایس واقعے میں ملوث ہونے کاالزام ہے وہ اپنی بیوی کے علاج کے سلسلے میں ہسپتال میں تھا اورموقع پرموجودنہیں تھا لیکن اسے شک کی بنا پراٹھا کرخفیہ مقدمہ چلا کرسزائے موت سنادی گئی, وقت ختم ہونے کے باعث سماعت منگل تک ملتوی کردی گئی۔