کراچی : قائد اعظم سے والہانہ عقیدت رکھنے والے اورسندھ کو پاکستان کا حصہ بنانے میں اہم کرداراداکرنے والےجی ایم سید کا آج ایک سو گیارہواں یوم پیدائش منایاجارہا ہے۔
سترہ جنوری انیس سو چار میں سید محمد ہاشم کے گھر آنکھ کھولنے والے سید غلام مرتضی شاہ المعروف جی ایم سید نےمارچ 1920میں آبائی شہر سن سے سیاست کا آغاز کیا۔
انیس سو اٹھائیس میں سندھ کو بمبئی سے الگ کرنے کی تحریک شروع کی ۔وہ انیس سو سینتس میں سندھ اسمبلی کے ممبر بنے اور انیس سوبیالیس میں مسلم لیگ سندھ کی صدارت سنبھالی اورسندھ اسمبلی سے پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کروانے میں کامیاب ہوگئے۔
چھبیس جولائی انیس سو تینتالیس کو بمبئی میں قائد اعظم پر قاتلانہ حملے کی خبر سندھ اسمبلی پہنچی توجی ایم سید بیہوش ہوگئے اوراجلاس ایک گھنٹے کیلئے ملتوی ہوگیا۔
جی ایم سید نے انیس سو بیالس میں پروگریسو مسلم لیگ کے نام سے سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی جبکہ انیس سوتہتر میں ملکی سیاست سے مایوس ہوکر جئے سندھ نامی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی ۔
جی ایم سید منجھے ہوئے سیاستدان ، ادیب، مفکر، فلسفی تھے، سائیں جی ایم سید نے ساٹھ (60) کتابیں لکھیں۔ "مذہب اور حقیقت” ان کی معرکتہ آرا کتاب ہے۔
ان کی زیادہ تر تصانیف سیاست، مذہب، صوفی ازم،سندھی قومیت اور ثقافت اور سندھی قوم پرستی کے موضوعات پر لکھی گی ہیں۔
1971 میں سقوط مشرقی پاکستان کے بعد سید صاحب نے اس وقت کے وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو سے ” سندھو دیش” کا مطالبہ کیا تھا۔
وہ تیس (30) سال پابند سلاسل رھے۔ 19 جنوری 1992 کو ان کو گرفتار کیا گیا اور ان کی موت تک ان کا گھر "زیلی جیل” قرار دے کران کو نظر بند کردیا گیا تھا۔
جی ایم سید طویل علالت کے بعد پچیس اپریل انیس سو پچانوے کو اکیانوے سال کی عمر میں جناح ہسپتال کراچی میں طویل عرصہ علیل رہنے کے بعد دنیا فانی سے رخصت ہوئے۔