کراچی: چاردہائیوں تک لوگوں کے چہروں پر قہقہے بکھیرنے والےہردلعزیزفنکارمعین اختر کا آج چونسٹھواں یوم پیدائش آج منا یا جارہاہے ۔فن کی دنیا میں مزاح سے لیکر پیروڈی تک اسٹیج سے ٹیلی ویژن تک معین اختروہ نام ہے جس کے بغیر پاکستان ٹیلیویژن اور اردو مزاح کی تاریخ نامکمل ہے۔
چوبیس دسمبر انیس سو پچاس کو شہر قائد میں پیدا ہونے والے اس فنکار نے اُنیس سو چھیا سٹھ میں سولہ سال کی عمر میں پاکستان ٹیلیویژن سے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز کیا۔ معین اختر نے کئی یادگار اور مثالی کردار ادا کئے جنہیں لازوال حثیت حاصل ہے۔ جن میں
مرحوم معین اختر نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت میں بھی اتنے ہی مقبول تھے،اے آر وائی کے پروگرام لوز ٹاک بھارت میں بھی بے حد مقبول تھا جو پانچ سال تک جاری رہا،جس مین انہوں نے چار سو کے قریب مختلف روپ دھارے،اوراس پروگرام سے متاثر ہوکر اسی طرز کا ایک پروگرام بھارتی ٹی وی چینلز پر بھی پیش کیا گیا،
لیجنڈ اداکار معین اخترنے ریڈیو ٹی وی اور فلم میں ادا کاری کے کئی یاد گا جوہر دکھائے،چوالیس سال تک کامیڈی اداکاری گلوکاری اور پروڈکشن سمیت شوبز کے تقریباً ہر شعبے میں ہی کام کیا۔
ان کے مشہور ڈراموں میں ہاف پلیٹ، سچ مچ ،عید ٹرین میں، مکان نمبر 47، فیملی ترازو،سات رنگ بندر روڈ سے کیماڑی،بند گلاب، اسٹوڈیو ڈھائی،یس سر نو سر،انتظار فرمائیے، ہیلو ہیلو ودیگر شامل ہیں ۔
اس کے علاوہ انہوں نے مختلف پروگراموں میں میزبانی کے دوران اپنے برجستہ جملوں سے اپنے لاکھوں سننے والوں کو محظوظ کیااور زبردست شہرت پائی۔
ان کے مشہور اسٹیج ڈراموں میں، بچاؤ معین اخترسے، ٹارزن معین اختر، بے بیا معین اختر، بکرا قسطوں پر، بایونک سرونٹ، بس جانے دو معین اختر،قابل ذکر ہیں۔
مزاح نگار، ڈائریکٹر، پروڈیوسر فلم اور اسٹیج کے فنکا ر بھی تھے۔ انہیں متعدد اعزازا ت سے بھی نوازا گیا ۔ معین اختر اپریل دو ہزار گیارہ میں اپنے کروڑوں مداحوں کو سوگوار چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی وفات سے پاکستان ایک عظیم فنکار سے محروم ہو گیا۔
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہم ہی سو گئے داستاں کہتے کہتے