11 ستمبر 1965 وہ تاریخی دن ہے جب پاکستانی افواج کے یکے بعد دیگرے کامیاب حملوں سے بھارتی افواج کے سینئر افسران کے قدم ڈگمگا گئے۔
بھارتی وزیر اعظم شاستری شہریوں کا غصہ ٹھنڈا کرنے اور اپنی جھوٹی شان برقرار رکھنے کے لیے جنگ سے با عزت فرار چاہتے تھے، جس کے باعث بھارت ناقابل تلافی نقصان کے باوجود جنگ بندی چاہتا تھا۔
ادھر بھارتی فوج کو ابتدائی حملوں میں شکست دینے کے بعد پاک افواج کے حوصلے اور عزم مزید بلند ہو گئے، جس کی بدولت وہ منظم ہوتے ہوئے ڈٹ کر جوابی کارروائیوں اور حملے کے لیے تیار ہو گئے، پاکستانی افواج کے یکے بعد دیگرے کامیاب حملوں سے بھارتی افواج کے سینئر افسران کے قدم ڈگمگا گئے۔
بھارتی افواج کے افسران پست حوصلوں کے ساتھ اس کشمش میں مبتلا ہو گئے کہ محض کشمیر کو جواز بنا کر اتنی بڑی جنگ کا مقصد کیا ہے، بھارتی فوج کے سیکنڈ آرمڈ بریگیڈ گروپ، اضافی ٹینک رجمنٹ نے کھیم کرن کے علاقے سے پاکستان کے شہر قصور پر حملہ کیا، پاکستانی افواج نے منہ توڑ جواب دیتے ہوئے بھارتی افواج کو پسپا کرتے ہوئے کھیم کرن پر قبضہ کر لیا۔
10 ستمبر 1965 کو کیا ہوا؟
گھمسان کی جنگ کے بعد پاکستان نے بھارتی فوج کو بھاری نقصان پہنچایا، قصور میں پاکستانی فوج نے لاہور کی طرف بھارتی پیش قدمی کو روکا، اور کھیم کرن کو چھڑانے کی بھارتی کوشش کو ناکام بنا دیا، پاکستانی فوج نے لازوال داستان رقم کرتے ہوئے جرات و بہادری کا مظاہرہ کیا اور لاہورکی طرف بھارتی پیش قدمی کو روک دیا۔
لاہور سیکٹر پر بھارتی فوج ہری کے برکی روڈ پہنچی جس کے بعد ان کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی، سیالکوٹ سیکٹر پر پاک فوج کی جانب سے ٹینکوں سے بڑا حملہ کیا گیا، جس میں 36 بھارتی ٹینک تباہ کر دیے گئے، چھمب سیکٹر پر پاکستانی فوج نے دیوا کے شمال میں موجود بھارتی فوجی چوکی پر قبضہ کر لیا۔
سندھ راجستھان سیکٹر میں پاکستانی فوج نے مزید کامیابیاں حاصل کیں، پاکستان فوج نے شمال کی طرف برق رفتاری سے پیش قدمی کرتے ہوئے گدرو میں مزید بھارتی چوکیوں پر قبضہ کیا، پاک فضائیہ نے ہلواڑہ کے مقام پر مگ جہازوں کی فارمیشن کو مکمل طور پر تباہ کیا، اور دو مزید بھارتی بمبار جہازوں کو مغربی بنگال باغ ڈوگرہ ایئر بیس پر تباہ کر دیا، دوراکا آپریشن کے بعد پاک بحریہ نے بحیرہ عرب میں اپنی بالا دستی برقرار رکھی۔