تازہ ترین

وزیراعظم نے گندم درآمد اسکینڈل پر سیکرٹری فوڈ سیکیورٹی کو ہٹا دیا

گندم درآمد اسکینڈل پر وزیراعظم شہبازشریف نے ایکشن لیتے...

پی ٹی آئی نے الیکشن میں مبینہ بے قاعدگیوں پر وائٹ پیپر جاری کر دیا

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے...

رسالپور اکیڈمی میں پاسنگ آؤٹ پریڈ ، آرمی چیف مہمان خصوصی

رسالپور : آرمی چیف جنرل سیدعاصم منیر آج...

چینی باشندوں کی سیکیورٹی کیلیے آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ

آزاد کشمیر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے...

نویں اور انٹر کے نتائج کا معاملہ، کمیٹی تاحال رپورٹ مرتب نہ کر سکی

کراچی: نویں کلاس اور انٹر سال اول کے نتائج میں طالب علموں کو فیل کیے جانے اور کم نمبر دیے جانے کے حوالے سے محکمہ تعلیم کالج ایجوکیشن کی 5 رکنی کمیٹی تاحال اپنی رپورٹ مرتب نہیں کر سکی ہے، جس کی وجہ سے ہزاروں طلبہ کی پریشانی برقرار ہے، طلبہ تاحال بورڈ کے چکر لگا رہے ہیں اور اسکروٹنی فارم جمع کرا رہے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق امتحانات کے حالیہ نتائج کے بعد 18 جنوری 2024 کو محکمہ کالج ایجوکیشن کی جانب سے ریجنل ڈائریکٹر کالجز کراچی ریجن کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، جس کو فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کا نام دیا گیا تھا، کمیٹی کو فیل ہونے والے طلبہ کے حوالے سے جانچ پڑتال مکمل کرنا تھی، اور سرکاری کالجوں کے نتائج کے حوالے سے اپنی سفارشات بھی پیش کرنا تھی۔

سیکریٹری کالجز کا کہنا ہے کہ کمیٹی کی رپورٹ آنے کے بعد ہی حتمی صورت حال سے آگاہ کیا جائے گا، تاہم سال 2023 کے امتحانی نتائج کے حوالے سے کوئی رپورٹ جاری نہیں کی گئی ہے، جب کہ سندھ حکومت نے 2021-22 کے امتحانی معاملات اور مالی بے ضابطگیوں پر رپورٹ جاری کر دی ہے۔

اس صورت حال میں متاثرہ امیدوار دوبارہ کاپیوں کی جانچ پڑتال کے لیے تاحال پریشان ہیں، ہزاروں طلبہ کا مستقبل سوالیہ نشان بن گیا ہے، مجموعی طور پر دونوں بورڈز کے 60 ہزار سے زائد طالب علم متاثر ہیں، متاثرہ امیدواروں اور والدین نے امتحانی کاپیوں کی دوبارہ جانچ پڑتال کا مطالبہ بھی کیا تھا، جس کے بعد اسکروٹنی کے نام پر صرف ٹوٹل نمبر دوبارہ کاونٹ کیے جا رہے ہیں۔

متاثرہ طلبہ نے اسکروٹنی فیس نہ لینے کا بھی مطالبہ کیا تھا، تاہم اب تک نویں اور انٹر سال اول کے اسکروٹنی فارم جمع کرانے والے امیدواروں سے فیسیں وصول کی گئی ہیں، گورنر سندھ کی جانب سے متاثرہ امیدواروں کی اسکروٹنی فیس کے حوالے سے درخواستیں جمع کرانے کی ہدایت کی گئی تھی، تاہم وزیر اعلیٰ کی تحقیقاتی ٹیم نے کاپیوں کی دوبارہ جانچ پڑتال کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

ذرائع محکمہ تعلیم کے مطابق تحقیقاتی ٹیم نے اسکروٹنی فیس نہ لینے پر بھی کسی قسم کے کوئی احکامات نہیں دیے۔

مالی بے ضابطگیوں کی رپورٹ پر سابق چیئرمین ڈاکٹر سعید الدین کا مؤقف

انٹر بورڈ میں امتحانی نتائج میں تبدیلی اور انتظامی و مالی معاملات سے متعلق رپورٹ پر سابق چیئرمین ڈاکٹر سعید الدین نے اپنے مؤقف میں کہا ہے کہ بورڈ کے تمام اخراجات اور آمدن کی سال میں 2 بار فنانس کمیٹی اور بورڈ آف گورنر سے منظوری لی جاتی ہے، جن کی منٹس کی منظوری یونیورسٹی اینڈ بورڈ ڈپارٹمنٹ سے لی جاتی ہے۔

انھوں ںے کہا فنانس کمیٹی اور بورڈ آف گورنرز کے ممبران کی نامزدگی بھی کنٹرولنگ اتھارٹی کرتی ہے، آڈٹ آفیسر حکومت سندھ نے تعینات کیا وہی مالی معاملات کے ریکارڈ رکھنے کے پابند ہوتے ہیں، جب کہ اخراجات کو جانچنے اور کنٹرول کرنا بھی ان کا کام ہے۔

ڈاکٹر سعید الدین کے مطابق 1972 سے قانون میں تبدیلی محکمہ بورڈز اینڈ یونیورسٹی کر سکتی ہے، بورڈ چیئرمین کو یہ اختیارات حاصل نہیں ہیں، بورڈ میں ملازمین کی تقرری، پروموشن اور اپ گریڈیشن کے قوانین میں ترمیم بھی حکومت کر سکتی ہے۔

انھوں نے کہا مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوا اور قیمتیں دگنی ہوئیں اس لیے اخراجات میں اضافہ ہوا، میرے دور میں نیا بینک اکاؤنٹ نہیں کھولا گیا، نہ ہی کوئی ایک نیا ملازم بورڈز میں بھرتی کیا گیا، جو ترقیاں ہوئیں وہ بورڈ کے رولز کے مطابق کی گئیں، امتحانات اور نتائج ناظم امتحانات کی ذمہ داری ہوتی ہے، یہ بورڈ چیئرمین کا ڈومین نہیں ہے۔

Comments

- Advertisement -