سردار اللہ بخش گبول کراچی کی سیاسی تاریخ کے الگ تھلگ سیاسی رہنما تھے، انگریز سرکار سے خان بہادر کا لقب پانے والے سردار اللہ بخش گبول سندھ کی ممبئی سے علیحدگی کے بعد تحریک پاکستان کے اہم رہنماء سر عبداللہ ہارون کو ۱۹۳۷ میں شکست دے کر کراچی سے رکن سندھ اسمبلی بنے اور سندھ اسمبلی کے پہلے ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوئے۔
خان بہادر اللہ بخش گبول کراچی کی قد آور سیاسی شخصیت سمجھے جاتے تھے تاہم وقت کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ بھی تحریک پاکستان کا حصہ بنے، اللہ بخش گبول دو بار کراچی کے میئر بھی رہ چکے ہیں اور اُن کے پوتے سردار نبیل گبول کراچی کے بلوچ علاقوں لیاری اورملیر میں مقبول سیاسی رہنما تصور کیے جاتے ہیں۔
لیاری سے کئی بار رکن سندھ اسمبلی اور ممبر قومی اسمبلی منتخب ہونے والے نبیل گبول نے پیپلز پارٹی کی سابقہ وفاقی حکومت کے خلاف اس وقت آواز بلند کی کہ جب رحمان بلوچ یا رحمان ڈکیت کو ایس ایس پی چوہدری اسلم نے ایک نام نہاد پولیس مقابلے میں قتل کرنے کا دعویٰ کیا۔
رحمان بلوچ جو کہ ایک زمانے میں لیاری کا بادشاہ ہوا کرتا تھا اور لیاری جو نبیل گبول کا حلقہ تھا تاہم رحمان کے قتل کے بعد حالات نے خلاف توقع کروٹ لی اور نبیل کا حلقہ انہی کے لیے نو گو ایریا بن گیا۔ ان حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئےنادیہ گبول نے متحدہ کو خیبر باد کہہ کر پیپلزپارٹی میں شمولیت کی اور لیاری میں پی پی کی راہیں ہموار کرنے میں مدد فراہم کی۔
نادیہ گبول کی پی پی میں شمولیت کے بعد نبیل گبول کو پیپلزپارٹی سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ میں شمولیت اختیار کرنی پڑی، پارٹی بدلنے کے بعد 2013 کے انتخابات میں متحدہ نے مضبوط ترین حلقے این اے 246 سے نبیل گبول کو نشست تحفے میں دی تاہم یہ حلقہ رکن اسمبلی کے لیے اچھا ثابت نہیں ہوا اور عوامی شکایات کو مدنظر رکھتے ہوئے بانی ایم کیو ایم نے رابطہ کمیٹی کو نبیل گبول سے استعفیٰ لینے یا کام کرنے کی ہدایت کی جس کے بعد حالات نے ایک بار پھر کروٹ لی۔ طیارہ اڑانے والے پائلٹ نبیل گبول طوفانوں کے رخ مڑنے سے ہمیشہ باخبر رہتے ہیں تو مناسب وقت آنے پر ایم کیو ایم کو بھی خیر باد کہہ کر نشست سے استعفیٰ دیا اور بھائی کو خیرباد کہہ دیا۔
گزشتہ ڈیڑھ سال سے سردار گبول کے بارے میں سیاسی سٹے بازی کے عالم میں کئی تکے لگتے رہے، کبھی سنا کہ نبیل گبول عمران خان سے ملنے جا رہے تو کبھی پتا چلا نواز شریف کے رابطے میں ہیں مگر نبیل گبول چھوٹا کھلاڑی نہیں، وہ سب سے بڑے کھلاڑی سے ملنے کی خواہش لیے سیاسی تیر پھینکتے رہے اور بالآخر بدھ کی شام بلاول ہاؤس کے دروازے ایک بار پھر 55 سالہ گبول شہزادے کے لیے کھول دیے گئے۔
شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے کامیاب ملاقات کے بعد اب ممکنہ طور پر نبیل گبول کے لیے لیاری آنا جانا آسان ہوجائے گا اور وہاں پر وہ سب سے مضبوط سیاسی شخصیت کے طور پر سامنے آئیں گے۔
نبیل گبول بغیر کسی دھوم دھام کے خاموشی کے ساتھ پیپلز پارٹی میں واپس آگئے جس کے لیے وہ گزشتہ چند ماہ سے ماحول سازگار بنا رہے تھے اس جدوجہد میں انہوں نے جہاں کئی مراحل گزارے وہیں حال ہی میں لیاری کا بھی دورہ کیا۔
پیپلزپارٹی میں اپنی واپسی پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے نبیل گبول نے کہا کہ وہ اپنے گھر واپس آگئے، ہم یہاں یہ سوال نہیں کرتے کہ گھر چھوڑا کیوں تھا؟ لیکن پاکستانی سیاست میں دروازے کھلے رہنے کا فلسفہ ہر جماعت میں ایک ہی طریقے سے موجود ہے۔
سیاسی جماعتوں کے دروازوں پر لگے پھاٹک ہر آنے جانے والے کے لیے ہر وقت کھلے رہتے ہیں بس ووٹ بینک کی چابی مضبوط لیڈر کے ہاتھ میں ہی رہنی چاہیے۔
سردار احمد خان گبول کے فرزند سردار اللہ بخش گبول کے پوتے سردار نبیل گبول کو پیپلز پارٹی نے اپنا سمجھ کر قبول کر لیا لیکن نادیہ گبول بھی پیپلز پارٹی کی اپنی ہیں اب دیکھنا یہ کہ آئندہ انتخابات میں ان دونوں کے عوض لیاری سے پیپلز پارٹی کس کو نشست پر ٹکٹ جاری کرتی ہے۔