ہفتہ, دسمبر 28, 2024
اشتہار

پاکستان اور ایران ایک تباہ کن مشترکہ سونامی کی زد میں

اشتہار

حیرت انگیز

پاکستان اور ایران بے شک کتنے ہی عسکری و سیاسی تنازعات میں الجھے ہوئے ہوں تاہم یہ دونوں ممالک ایک مشترکہ سونامی کے خطرے کی زد میں ہیں جو کسی بھی وقت ان دونوں کو اپنا نشانہ بنا سکتا ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں جیو فیزیکل جرنل انٹرنیشنل میں شائع ہونے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ کا حوالہ دیا گیا جو ان دونوں ممالک کو لاحق ایک بڑے سونامی کے خطرے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان (مکران) اور ایران کی جنوبی ساحلی پٹیوں پر تیزی سے ترقیاتی کام جاری ہیں۔ ان مقامات پر نئی آبادیاں بسائی جارہی ہیں اور ساحل پر آباد بستیاں شہروں میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ یہ سیدھا سیدھا لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو تباہ کن سونامی کے براہ راست حوالے کردینے کے مترادف ہے۔

- Advertisement -

اس تحقیق میں ماہرین نے اس خطے میں زلزلوں کا سبب بننے والی لہروں کا علم (سیسمولوجی)، زمین کی ساخت کا علم (جیوڈیسی) اور کسی مخصوص حصے میں زمین کی طبعی خصوصیات کا علم (جیومارفولوجی) جیسی تکنیک استعمال کی ہیں۔

رپورٹ میں اس علاقے میں آنے والے گزشتہ زلزلوں کا بھی ذکر کیا گیا جن میں سنہ 1945 کا تباہ کن زلزلہ شامل ہے۔

مزید پڑھیں: زلزلے کیوں آتے ہیں؟

سنہ 1945 میں موجودہ گوادر پورٹ اور اس سے ملحقہ علاقے میں 8.1 درجے کے زلزلے اور پھر سونامی آیا جس کے نتیجے میں 300 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اس سونامی سے موجودہ پاکستان اور عمان متاثر ہوئے تھے۔ یہ خطہ مستقل زلزلوں کی زد میں ہے اور اس برس فروری میں بھی یہاں 6 درجے شدت کا زلزلہ آ چکا ہے۔

اب اس علاقے میں تیزی سے ترقیاتی کام جاری ہیں۔

ماہرین کے مطابق اگر ایران میں واقع مکران کے مغربی حصہ میں زلزلے آئیں اور پورے مکران میں میگا تھرسٹ ایک ساتھ حرکت کرے تو اس خطے میں سماترا اور ٹوکیو کی طرح 9 درجے کا ایک خوفناک زلزلہ آ سکتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ایران اور پاکستان کا جنوبی ساحلی علاقہ مکران ایک سبڈکشن زون ہے یعنی یہاں زیر زمین موجود پلیٹیں نہایت شدت کے ساتھ ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں۔ اس خطے میں زیر زمین ٹیکٹونک پلیٹ یا پرت ایک دوسری پرت کے نیچے سرک رہی ہے جس کے نتیجے میں ایک بہت بڑی فالٹ لائن وجود میں آ رہی ہے۔

اسی فالٹ لائن کو میگا تھرسٹ کہا جاتا ہے۔

یہ پرتیں ایک دوسرے کے ساتھ مخالف سمت میں سرکتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہیں۔ اس دوران یہ ایک دوسرے میں پھنس سکتی ہیں جس کے نتیجے میں دباؤ پیدا ہوتا ہے۔ یہ دباؤ اتنا زیادہ ہو سکتا ہے کہ اس کے نتیجے میں شدید زلزلہ آ جائے۔

ماہرین کے مطابق جب میگا تھرسٹ تیزی سے حرکت کرتا ہے تو سمندر کی زمین بری طرح ہل جاتی ہے اور ایک بڑے علاقے میں پانی کو اچھال دیتی ہے جس کے نتیجے میں اونچی اونچی لہریں پیدا ہوتی ہیں جو میلوں دور تک جا سکتی ہیں۔

مثال موجود ہے

محققین کا کہنا ہے کہ سنہ 2004 میں سماترا اور پھر 2011 میں ٹوکیو میں آنے والے سونامی اسی وجہ سے آئی تھیں۔

سنہ 2004 میں بحر ہند کے جزیرے سماترا کے پاس سمندر کے نیچے 9 درجے کے زلزلے کے نتیجے میں کئی میٹر اونچی لہروں نے ایسی تباہی مچائی کہ 2 لاکھ 30 ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہوئے۔ اس زلزلے سے 14 ممالک متاثر ہوئے تھے۔

اس کے بعد 2011 میں جاپان میں 9 درجے کے زلزلے کے نتیجے میں 20 میٹر اونچی سمندری لہروں نے 15 ہزار افراد کو ہلاک کیا۔ اس سونامی سے فوکوشیما کا جوہری بجلی گھر بھی متاثر ہوا اور تابکاری کا خطرہ پیدا ہوا۔

لندن کے جریدے جیوفیزیکل جرنل انٹرنیشنل میں چھپنے والی اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ بحیرہ عرب کے شمالی کونے پر 1 ہزار کلو میٹر لمبی زلزلے کے خطرے والی پٹی ہے جو اسی طرح کے خطرے سے دوچار ہے۔ ایران اور پاکستان کا جنوبی ساحلی علاقہ مکران بھی اسی علاقے میں شامل ہے۔


اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں