تازہ ترین

چینی باشندوں کی سیکیورٹی کیلیے آزاد کشمیر میں ایف سی تعینات کرنے کا فیصلہ

آزاد کشمیر میں امن وامان کی صورتحال برقرار رکھنے...

ملک سے کرپشن کا خاتمہ، شاہ خرچیوں میں کمی کریں گے، وزیراعظم

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے...

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے پاکستانی اقدامات کی حمایت کر دی

امریکا نے دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے...

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور منایا جا رہا ہے

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم مزدور...

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان

وزیراعظم شہبازشریف نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی...

خوراک کی عدم دستیابی لاکھوں افراد کو متاثر کرے گی، فوڈ سکیورٹی انفارمیشن نیٹ ورک

نیویارک : 2018 میں قدرتی آفات، جنگ و جدل اور اقتصادی مسائل کے سبب 11 کروڑ 30 لاکھ افراد کے غذائی قلت سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق فوڈ سکیورٹی انفارمیشن نیٹ ورک نے انتباہ جاری کیا ہے کہ خوراک کی عدم دستیابی سے رواں سال لاکھوں انسان غذائی قلت کا شکار ہوں سکتے ہیں۔

غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ 2018 میں قدرتی آفات، جنگ و جدل اور اقتصادی مسائل کے سبب 113 ملین افراد ایسی صورتحال سے دوچار ہیں، یمن میں ایک کرورڑ ساٹھ لاکھ افراد کو خوارک کی اشد ضرورت ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ کانگو میں ایسے افراد کی تعداد ایک کروڑ تیس لاکھ اور افغانستان میں لگ بھگ ایک کروڑ پانچ لاکھ ہے۔

خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یہ انکشاف فوڈ سکیورٹی انفارمیشن نیٹ ورک کی جاری ہونے والی سالانہ رپورٹ میں کیا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2018 میں قدرتی آفات، جنگ و جدل اور اقتصادی مسائل کے سبب گیارہ کروڑ تیس لاکھ افراد ایسی صورتحال سے دوچار ہیں کہ انہیں فوری طور پر مدد درکار ہے۔

مزید پڑھیں : حوثی ملیشیا امدادی خوراک لوٹ کر نقد فروخت کررہی ہے

خیال رہے کہ رواں برس کے آغاز میں عالمی ادارہ خوراک نے یمن میں غذائی قلت سے متعلق ایک رپورٹ شائع کی تھی جس کے عالمی ادارہ خوراک نے رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ قحط کا شکار یمنی شہریوں کے لیے بھیجی گئی خوراک کو حوثیوں کے کنٹرول والے علاقوں میں لوٹ کر نقد فروخت کیا جارہا ہے۔

عالمی ادارہ خوراک کی رپورٹ کے تحت یمن میں پیدا ہونے والی غذائی قلت کی صورتحال مصنوعی ہے جیسے اپنے حقوق کی مسلح جدوجہد کرنے والے حوثی جنگجو لوٹ کر پیدا کررہے ہیں۔

Comments

- Advertisement -